• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت متعدد سیاستدانوں اور حکام کی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ایک گاڑی، 15اہلکار، سابق وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ایک ایک گاڑی اور دس دس اہلکارتعینات ہوں گے۔ وزرائے اعلیٰ کی سیکورٹی کا تعین چیف سیکورٹی آفیسرز کریںگے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی رہائش گاہ جاتی امرا سےایلیٹ فورس کے 142 اور پنجاب کانسٹیبلری کے 210اہلکاروں کو واپس بلا لیا گیاہے۔ ذرائع کے مطابق کیپٹن (ر) صفدر اورمیاں عباس شریف کی فیملی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کی بھی واپسی ہوچکی ہے۔ درجہ بدرجہ سب حکام کی سیکورٹی کا تعین کردیا گیا ہے جس میں پولیس، عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر حکام شامل ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے سیاسی، مذہبی قائدین اور سابق پولیس افسران سے بھی سیکورٹی اہلکارواپس لے لئے گئے ہیں۔ سیاسی قائدین، رہنمائوں اور دیگر انتظامی حکام کیلئے سیکورٹی بلاشبہ ضروری ہے لیکن سیکورٹی کے نام پر پروٹوکول درست نہیں۔ دراصل یہ وی آئی پی کلچر ہے جو اس صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس پر عوام کے ٹیکسوں سے کشید کیا گیا بھاری سرمایہ صرف ہوتا ہے۔ چالیس چالیس گاڑیوں کے قافلے کیاسیکورٹی کے لئے ہوتے ہیں یا اپنے شاہانہ رویے کی تسکین کے لئے؟ اس پر مستزاد کہ جہاں وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے وہاں گھنٹوں سڑک بند کرکے عوام کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیامہذب دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یورپ کے ممالک اورمتحدہ عرب امارات کے حکمران کو لوگوں نے اکثر اپنے بیچ پایا اور ان کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ یہاں ایک سابق حکومتی اہلکارکے رشتہ داروں تک کو سرکاری سیکورٹی فراہم کی جاتی رہی اور اس کی رہائش اور فارم ہائوس پر سینکڑوں اہلکارتعینات رہے۔ تمام سیاستدان صاحب ِ حیثیت ہیں اور اپنی سیکورٹی خود رکھ سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کاحکم انتہائی اہم ہے اس سے نہ صرف وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی راہ ہموارہوسکتی ہے بلکہ عوام کے تحفظ کویقینی بنانے کے لئے بہتر اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔

تازہ ترین