• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنسی ہراسگی پر پانچ سوال

میں علی ظفر کا مداح ہوں ، علی ظفر ایک خوبصورت آواز کا مالک ہے ، سٹائلش اداکار ہے ،اس کی فیشن سینس بھی اچھی ہے ،میری آج تک علی ظفر سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ،اسے صرف گانوں اور فلموں میں دیکھا ہے ،اس کی والدہ پنجاب یونیورسٹی میں غالباًشعبہ لائبریری کی سربراہ ہیں ،ان سے ایک مرتبہ سر راہ ملاقات ہوئی تھی ،وہ مجھے بے حد سلجھی ہوئی اور شائستہ خاتون لگیں۔میشا شفیع سے میری کوئی ملاقات نہیں، ان کے نانا حمید اختر مرحوم سے ایک دو ملاقاتیں یاد ہیں،اسی طرح میشا کی والدہ صبا حمید کو صرف ٹی وی ڈراموں کی حد تک جانتا ہوں ، نانا اور والدہ دونوں ہی اپنے اپنے شعبوں میں با کمال تھے (ہیں)، البتہ میشا کا میں مداح نہیں ہوں ،جس گانے ’’جگنی ‘‘سے انہیں شہرت ملی وہ دراصل عارف لوہار کا گانا ہے ،میشا کی فیشن سینس بھی خاصی عجیب ہے ، ایک ٹی وی چینل کے ایوارڈ شو میں محترمہ نے سفید قمیض کے ساتھ سیاہ پینٹ کوٹ اس بے ڈھنگے انداز میں پہنا کہ دیکھ کر سر پیٹنے کو دل چاہا ، میشا کے مقبول گانوں کی فہرست بھی علی ظفر کے مقابلے میں خاصی مختصر ہے ۔تین دن پہلے جب میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراسگی کا الزام لگاتے ہوئے ٹویٹ کی تو بطور مرد اور علی ظفر کے مداح کے لا محالہ میرا پلڑا علی ظفر کی طرف جھک گیا ، میں نے سوچا کہ جب کسی کا دل کرتا ہے منہ اٹھا کے الزام لگا دیتا ہے ،یہ کو ئی طریقہ ہے ، مرد کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے ،اس دوران کچھ دوستوں نے میشا اور علی کی تصاویر دلچسپ تبصروں کے ساتھ شیئر کیں تو میشا شفیع کے لئے رہی سہی ہمدردی بھی ختم ہو گئی ، ان تصاویر میں میشا نہایت بے باکی سے علی ظفر کی باہوں میں جھولتی ہوئی نظر آرہی تھیں ۔لیکن پھر میں نے خود سے پانچ سوال کئے ، وہی سوال جو عموماً اس قسم کے مسئلے پر ہم مرد لوگ اٹھاتے ہیں !
پہلا سوال۔جو عورت خود نیم برہنہ لباس میں غیر مردوں کے ساتھ تصاویر بنوانے میں کوئی شرم محسوس نہ کرے وہ کس منہ سے کسی مرد کے خلاف جنسی ہراسگی کا الزام لگا سکتی ہے ؟ گویا ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ جب ایک عورت نے لباس کے معاملے میں اپنی مرضی کر لی اور ایسا لباس پہن لیا جس میں اُس کا جسم نمایاں ہوگیا تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس نے تمام مردوں کو یہ لائسنس دے دیا کہ اب اسے جیسے مرضی جہاں مرضی چھو لیا جائے کوئی روک ٹوک نہیں اور بالفرض محال اگر اسے کسی مرد کا چھونا برا لگ بھی جائے تو ایسی عورت کو بہرحال یہ حق نہیں رہتا کہ وہ جنسی ہراسگی کی شکایت کر سکے کیونکہ باریک لباس میں تصاویر اتروا کر وہ اپنے اِس حق سے دستبردار ہو چکی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ بات ہی بے سروپا ہے ، لباس ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے ، وہ جانے اور خدا جانے ،اگر کوئی عورت سکرٹ میں گھومتی ہے تو اس کا یہ مطلب کیسے نکال لیا جائے کہ اب وہ تمام مردوں کے لئے ’’دستیاب‘‘ ہے اور اس سے چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے!ہم وہ لوگ ہیں جو خود نیکر میں گھومتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عورتیں شٹل کاک برقع میں رہیں۔(واضح رہے کہ گھٹنوں سے اوپر نیکر مرد کے لئے بھی ممنوع ہے)۔دوسرا سوال ۔اتنی دیر میں کیوں بولی ؟جب کسی عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے تو ہم مردوں کا خیال ہے کہ اسے فوراً بتانا چاہئے ، دیر نہیں لگانی چاہئے ، جب وہ کئی برس تک چپ رہتی ہے تواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اتنے سال تک ’’راضی‘‘ تھی لہذا اب بولنے کی تُک نہیں بنتی۔ مردوں کے لئے یہ کہنا آسا ن ہے مگر ایک عورت کے لئے یہ کام بے حد مشکل ہے ،وہ پہلے ہی کمزور ہوتی ہے، معاشرے کی عائد کردہ پابندیاں اور رکاوٹیں توڑ کر اسے زندگی میں آگے بڑھنا ہوتا ہے ، ایسے میں اگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کے بارے میں بروقت آگاہ نہیں کرتی تو اُس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زیادتی ہوئی نہیں یا وہ اس بارے میں بتانے کا حق کھو بیٹھی۔میشا شفیع کو البتہ یہ رعایت دینا مشکل ہے، خود اُس کے بیان کے مطابق وہ پہلے دن سے empoweredہے ،اور پھر اُس نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ علی ظفر نے کب اورکس طریقے سے اسے ہراساں کیا ! جن تصاویر میں دونوں اکٹھے ہیں اس سے پہلے اگر علی ظفر نے کوئی حرکت کی تھی تو وہ باب تو ختم ہو چکا ، بعد میں اگر اُس نے میشا کو ہراساں کیا تو کم از کم اُس کا وقت اور نوعیت میشا کو ضرور بتانی چاہئے کیونکہ میشا شفیع بہر حال کوئی خوفزدہ یا سہمی ہوئی لڑکی نہیں ، ایک دبنگ عورت اورسٹارہے جو پوری دنیا گھومتی ہے، وہ علی ظفر کی ہم پلہ گلوکارہ ہے ، علی ظفر کے زیر نگیں نہیں ، علی ظفر اُس کا باس نہیں ، علی ظفر کے ہاتھ میں اس کا کیرئیر نہیں جو وہ اس کا استحصال کر سکے۔تیسرا سوال۔عورتیں اس قسم کے الزامات سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے لگاتی ہیں ، کیااِس صورت میں انہیں سنجیدگی سے لینا چاہئے ؟یہ سوا ل خاصا مضحکہ خیز ہے اس لئے خود میں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کوئی بھی مہذب خاتون ایسے الزامات اس لئے نہیں لگاتی کہ وہ مشہور ہو جائے ، ایک طرف ہم عورت کو کہتے ہیں کہ وہ چپ کیوں رہی اور جب وہ بولے تو کہتے ہیں کہ سستی شہرت کے لئے بولی !
چوتھا سوال۔ کیا جنسی ہراسگی کا الزام لگا دینے سے الزام ثابت ہوجاتا ہے ، کیا عورت کوئی ثبوت دینے کی پابند نہیں ؟ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں لفٹ میں کھڑی عورت کو نیچے سے اوپر تک بغور دیکھنا بھی جنسی ہراسگی کے زمرے میں آتا ہے ،امریکہ جیسے ممالک میں جب کوئی عورت جنسی ہراسگی کا الزام لگاتی ہے تو بار ثبوت مرد پر ہوتا ہے ۔
وہ ثابت کرے کہ یہ الزام غلط ہے جبکہ عام حالات میں وہاں ہر شخص معصوم ہے تاوقتیکہ جرم ثابت نہ ہو۔ظاہر ہے کہ ابھی ہم عورت کو بااختیار بنانے کی اُس منزل تک نہیں پہنچے سو اپنے ہاں قانونی طور پر ثبوت دینا ضروری ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو زبردستی نا مناسب انداز میں پکڑنے کی کوشش کرے تو اس بات کا ثبوت عورت کیسے مہیا کر سکتی ہے ! اوریہ بھی ممکن ہے کہ کوئی عورت کسی مرد پر جھوٹا الزام لگادے ۔ ایسی صورت میںدونوں کے ماضی کے تعلقات دیکھے جاتے ہیں ، امریکہ جیسے ملک میں بھی اگر یہ پتہ چل جائے کہ دونوں میں ماضی میں تعلق رہا ہے تو کیس کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔میشا اور علی ظفر کے کیس میں یہ نکتہ نہایت اہم ہوگا۔پانچواں سوال:اگر عورت خود مرد کو موقع نہ دے تو کسی مرد کی جرات نہیں کہ وہ عورت کو ہراساں کر سکے ، تو کیا جنسی ہراسگی کا الزام لگانے والی عورتیں خود ہی اِس کی ذمہ دار نہیں ؟یہ بھی مضحکہ خیز سوال ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر یہ سوال خود ساختہ پارسا عورتوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے ۔بندہ ان سے پوچھے کہ معصوم بچیوں کو جو لوگ ہراساںکرتے ہیں ، وہ بچیاں کیا ایسے مردوں کو موقع فراہم کرتی ہیں ؟
یہ سوالات ہمارے کلچر کا شاخسانہ ہیں ۔ہم نے مغرب سے فرد کی آزادی ، feminism، آزادی اظہار اور لبرل ازم جیسی تراکیب تو سیکھ لی ہیں مگر ہمارے کلچر نے ابھی انہیں مکمل طورپرقبول نہیں کیا ، اسی لیے جاوید شیخ صاحب ایوارڈ تھماتے ہوئے جب ماہرہ خان کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے ، کیونکہ کیمرے آن ہوتے ہیں اور یہ لبرل کلچر ابھی عوام میںمقبول نہیں ہوا جبکہ شو بز کی نجی محفلوں میں یہ معمولی بات ہے ۔یہی معاملہ جنسی ہراسگی کا ہے ۔یہ اصطلاح ہمارے ہاں تازہ تازہ وارد ہوئی ہے ، مردوں کو اسے ہضم کرنے میں کچھ وقت لگے گا ، ہم چونکہ بھان متی کا کنبہ بن چکے ہیں سو اِس بات کا تعین نہیں ہو پا رہا کہ محلے کی لڑکی سے فون نمبر مانگنا جنسی ہراسگی ہے یا فلمی اداکارہ کی کمر میں بازو ڈال کر قریب کرنا !ہر دو صورتوں میں مردوں کے لئے عذاب ہے کیونکہ اب تو کالج میں کوئی لڑکا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ انیلہ میں تم سے محبت کر تا ہوں۔ استاد محترم سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو انہوں نے فرمایا انیلہ کی جگہ کوئی اور لڑکی ڈھونڈو۔تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا!
کالم کی دُم: انیلہ ایک فرضی کردار ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین