• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوآبادیاتی دور کب کا تاریخ ہوا۔ لیکن قبائلی علاقوں میں ابھی بھی کروفر سے جاری۔ انگریزوں کے انیسویں صدی کے غلامانہ قانونی و انتظامی ڈھانچے ختم ہونے کو نہیں۔ اگر پہلی بھٹو حکومت میں جنرل نصیر اللہ بابر کی زیرِ قیادت کمیٹی کی وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (FATA) کو صوبہ خیبرپختون خوا میں ضم کرنے کی تجویز پر عمل ہو جاتا، تو یہ گتھی کبھی کی سلجھ گئی ہوتی۔ پھر افغان جہاد نے تو اِس خطے کی سماجی و سیاسی اور حربی و نظریاتی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ انگریزوں کے دور میں جسے ایک درمیانی محفوظ کڑی یا بفرزون کے طور پر رکھا گیا تھا، وہ مغربی استعمار کی سوویت یونین کے خلاف یلغار کا اگلا مورچہ بن گیا اور افغانستان بھی گریٹ گیم کے زمانے کا بفرزون نہ رہا۔ تب سے اب تک چار دہائیوں تک یہ جنگی میدان یا وار زون بنا ہوا ہے۔ پھر طالبان کا غلبہ ہوا۔ اور ہمارے قبائلی علاقوں پہ بھی مختلف دہشت گرد گروہوں کی امارات بننے کا سلسلہ چل نکلا۔ قبل ازیں سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی ان علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنیں اور ایک دہائی تک یہاں جہادی تنظیموںاور جہادی کلچر کو فروغ دیا گیا تھا.نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پھر سے امریکہ کا حلیف بنا۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے اور امریکی افواج کے افغانستان پر قبضے کے باعث طالبان کی سپاہ بکھر کر سرحد کے اِدھر اور اُدھر پناہ گزیں ہو گئیں۔ اور پھر سے جہاد کا نیا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ اس نے نہ صرف قبائلی علاقوں بلکہ پورے پاکستان اور افغانستان کو دہشت کی لپیٹ میں لے لیا۔ افغان طالبان کی دیکھا دیکھی ہمارے مجاہدین کی رگِ جہاد ایسی پھڑکی کہ اُن کی وحشت ناکیوں سے مملکتِ خداداد کا چپہ چپہ زخم خوردہ ہوا۔ طالبان نے دہشت کی وہ ات پھیلائی کہ ریاست کو بھی جان کے لالے پڑ گئے۔ اور جب ریاستی اختیار یا رِٹ چیلنج ہوئی اور شوقِ جہاد کا نشہ ذرا اُترا تو پھر ریاست نے پلٹ کر اُن کے صفائے کی ٹھانی۔ پہلے سوات، جنوبی وزیرستان، پھر شمالی وزیرستان، اورکزئی اور دیگر ایجنسیوں میں ہمارے جوانوں اور شہریوں نے بے شمار قربانیاں دے کر قبائلی علاقوں کو بالآخر فسادیوں کے چنگل سے آزاد کروا لیا۔
لیکن اس سب میں بیچارے قبائلی بھائیوں کا کچھ نہ بچا، گھر بار، رہن سہن، بود و باش، کاروبار اور روزگار سب غارت ہوئے اور وہ کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ ہزار ہا لوگ مارے گے، لاکھوں انخلا پر مجبور ہوئے، ہزاروں جانے کدھر گئے، جانے کتنے کراس فائر میں کام آئے۔
سوات آپریشن کے بعد کامیابی سے بے دخل لوگوں کو بحال کر دیا گیا تھا۔ اور جب آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو پھر ضربِ عضب نے کام کر دکھایا اور بچا کھچا صفایا ردّالفساد کی مہم کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہو سکا جب نیشنل ایکشن پلان پر ملک کی تمام جماعتوں کے اتفاقِ رائے اور پارلیمنٹ کی متفقہ حمایت سے دہشت گردی کے خاتمے پر قومی اتفاقِ رائے ہوا۔ اور بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے عفریت کو کافی حد تک مات تو کر دیا گیا، لیکن ابھی بھی ان کی کمیں گاہیں اور نظریاتی فیکٹریاں دھڑا دھڑ انتہا پسند پیدا کر رہی ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت عسکری جہت نے تو جیسے کیسے اپنا کام کر دکھایا لیکن دوسری جہتوں پہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا پر اپنی تجاویز مرتب کیں اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا ایک طویل مدتی منصوبہ پیش کیا اور بات فاٹا کو صوبہ پختون خوا میں ضم کرنے پر سیاسی مصلحت پسندی کی نذر ہو گئی۔ افواج اپنا کام کر چکیں، جیساکہ وہ کیا کرتی ہیں۔ لیکن سول آبادیاں چار دہائیوں کی مارا ماری میں تباہ و برباد ہو کر رہ گئیں۔ جن دہشت گردی کے وقتاً فوقتاً واقعات سے ملک بھر کے لوگ دہل کر رہ جاتے تھے، وہ کئی دہائیوں تک قبائلی علاقوں کے مظلوم لوگوں کا روز مرہ کا مقدر رہے۔ ایسے میں لوگوں اور مرنے والوں کے لواحقین کو کیا غرض کہ ان کا گھر کس نے تباہ کیا اور کون اُن کے بچے کے ناحق قتل یا اغوا کا ذمہ دار ہے۔ قبائلی علاقوں اور وہاں کے لوگوں نے بہت ظلم، بہت تباہی اور بربادی دیکھی ہے۔ اُنہیں سیاست دانوں کی پھرتیوں اور مقتدرہ کے اعلیٰ منصوبوں سے کیا غرض۔ وہ بیتاب ہیں، غصے میں ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں کہ بس ہمیں امن سے رہنے دو، ہمارے گھروں، کاروباروں اور ذرائع معاش کی بحالی کرو، جو تباہی ہوئی اس کا ازالہ کرو، جو بچے غائب ہیں، اُن کا پتہ دو، اُن میں جو جرائم یا دہشت گردی میں ملوث ہیں اُنھیں قانون کے حوالے کرو، جو مارے گئے یا فرار ہو گئے، اُن کی جو اور جتنی خبر ہے، وہ لواحقین کو دو کہ وہ صبر کریں یا اُن کی بازیابی کے لئے قانون کے دروازے پہ دستک دیں۔ قبائلی عوام اُنھی شہری، انسانی اور سماجی حقوق کے طلبگار ہیں جو ہمارے آئین میں موجود ہیں۔ وہ چوکیوں پر اچھے سلوک کے متلاشی ہیں۔ اور اپنے مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔
پارلیمنٹ نے نہایت مستحسن قانون پاس کر کے سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار قبائلی علاقوں تک بڑھا دیا ہے، جو خوش آئند ہے۔ اب پاکستان کے آئین میں دیئے گئے تمام شہری و انسانی حقوق اور قوانین کا اطلاق بھی ان علاقوں کے لئے نہایت اہم ہے جس کے بغیر قبائلی لوگ برابر کے شہری نہیں بن سکتے۔ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ، پولیٹکل ایجنٹس اور ملک سسٹم کو بھی فوراً جانا ہوگا۔ اُن کی جگہ جدید انتظامی ڈھانچے، بااختیار منتخب مقامی حکومتیں ہی موجود خلا کو پورا کر سکتی ہیں۔ رہی بات فاٹا کی انتظامی حیثیت کی، اس پر دو تجاویز ہی زیرِ بحث ہیں کہ فاٹا کا علیحدہ صوبہ ہو یا یہ پختون خوا میں ضم کر دیا جائے۔ معاملے کی نزاکت اور وقت کا تقاضا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے موقع پر ہی ایک علیحدہ بیلٹ کی صورت میں فاٹا کے رائے دہندگان کی رائے لے لی جائے اور اس کے ساتھ ہی صوبائی حلقوں کے الیکشن کروا دیئے جائیں۔ دونوں صورتوں میں یہ صوبائی اراکین متعلقہ صوبے کا حصہ بن جائیں گے۔ اس پر یہی پارلیمنٹ کوئی راستہ نکال سکتی ہے۔
کچھ عرصے سے ہم نقیب اللہ محسود کے کراچی میں بہیمانہ قتل کے ردّعمل میں قبائلی نوجوانوں کا اُبھار دیکھ رہے ہیں، جو خود رو ہے اور اس میں طرح طرح کے لوگ ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جو قتال و جہاد اور فساد کے خاتمے کے تصادم میں جواں ہوئی ہے۔ خون، جنگ و جدل، تباہی، بربادی، گھروں سے بے دخلی اور دربدر ٹھوکریں کھانے کے سوا انہیں گذشتہ دو دہائیوں میں ملا ہی کیا ہے۔ اُن کے زخموں کو مندمل کرنے، ان کے جذبات کی تشفی کرنے اور اُن کے شہری، انسانی و سماجی حقوق پر مبنی مطالبات کو بلاتامل قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں تعمیرِ نو، احیائے نو، امن و ترقی اور بحالی کے عمل میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز ہی آئی ایس پی آر نے قبائلی علاقے کے تاجروں کی بحالی اور نقصانات کے ازالے کے مطالبات پر اچھی پیشرفت کی ہے۔
میرے دوست گورنر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا اور کور کمانڈر پشاور کو پشتون نوجوانوں سے اُن کے مطالبات پر فوراً بات چیت شروع کرنی چاہئے۔ وزیراعظم خاقان عباسی سے بھی اُن کے مذاکرات ہوئے تھے، انہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان نوجوانوں کی جمہوریت، سماجی انصاف اور امن کے لئے اُمنگیں قبائلی علاقوں کو پسماندگی اور شدت پسندی سے باہر نکالنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ نوجوانوں کو گلے لگاؤ، آخر یہ ہمارے ہی بچے ہیں۔ ایک اور نسل کو بچانے کا وقت ہے نہ کہ دھتکارنے کا۔ کاش یہ ہم سمجھ سکیں اور نوجوانوں کو تعمیرنو اور امن و ترقی کے کام پر لگا سکیں اور دشمن کو بھی کھل کھیلنے کا موقع نہ دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین