• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر مرتبہ عام انتخابات سے قبل اس مفروضہ پر بحث شروع ہو جاتی ہے کہ نگران حکومت مقررہ وقت کے اندر انتخابات نہیں کرا سکے گی ۔ نگران حکومت کا دورانیہ طویل ہو جائے گا اور انتخابات سے قبل احتساب ہو گا تاکہ ’’ صفائی ‘‘ کی جا سکے ۔ یہ مفروضہ ہمیشہ مفروضہ ہی رہا اور حقیقت میں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ صرف 2007 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے سانحہ عظیم کی وجہ سے عام انتخابات میں ایک ماہ کی تاخیر ہوگئی اور انتخابات جنوری کی بجائے فروری 2008 ء میں منعقد ہوئے ۔ کبھی نگران حکومت کی مدت میں ’’ احتساب ‘‘ کی وجہ سے توسیع نہیں کی گئی ۔ پاکستان کی تاریخ میں عام انتخابات کو روکنے کے لئے اب تک صرف یہی طریقہ اختیار کیا گیا کہ کوئی آمر اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے۔ نگران حکومت کی مدت میں توسیع نہیں ہوئی ۔ اس کے باوجود آج بھی اس مفروضے پر بحث جاری ہے ۔
اس مفروضے کی تائید میں یہ دلیل گھڑی جا رہی ہے کہ ہماری عدلیہ جس طرح کرپشن کے خاتمے اور گورننس کے ایشوز پر ازخود کارروائیاں کر رہی ہے ۔ اس سے عمومی تاثر یہ پیدا ہوا ہے کہ نہ صرف جمہوری حکومتیں کچھ ڈلیور نہیں کر سکی ہیں بلکہ مجموعی طور پر سیاسی نظام ناکام ہوا ہے۔ اس صورت حال کے بعد عام انتخابات کرانے سے کیا فائدہ ہو گا ، جن کے نتیجے میں وہی لوگ دوبارہ حکومتوں میں آ جائیں گے ۔ اس لئے عدالتیں کسی بھی آئینی درخواست پر یہ فیصلہ دے سکتی ہیں کہ نگران حکومتیں دو یا تین سال کے لئے کام کرتی رہیں ۔ انہیں احتساب اور گڈ گورننس کا مینڈیٹ دیا جائے گا ۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ آئین میں تو 90 دن سے زائد کی نگران حکومت کی کوئی گنجائش نہیں تو عدلیہ کے ماضی کے فیصلوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سب کچھ ممکن ہے ۔ بعض لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ سول حکومتیں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پروگرام پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوئی ہیں ۔ نگران حکومتوں کو یہ اہم ذمہ داری بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔ ملکی معیشت کی بحالی کا کام بھی اسے سونپا جا سکتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ حالانکہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک میں کوئی غیر آئینی اقدام نہیں ہونے دیں گے ۔ اس کے باوجود بھی مفروضے پر بحث جاری ہے ۔
ایک حلقے کا کہنا یہ ہے کہ موجودہ جمہوری حکومتوں کے دور میں عدلیہ اور احتساب کے اداروں خصوصاً قومی احتساب بیورو ( نیب ) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) نے جو کام کیا ہے یا اب تک کر رہے ہیں ۔ اس میں یہ ضرورت ہی نہیں ہے کہ نگران حکومت کے دورانیے کو طویل کیا جائے کیونکہ عدلیہ اور احتساب کے ادارے بعد کی جمہوری حکومتوں میں بھی یہ کام کر سکتے ہیں لیکن زیادہ دورانیے والی نگران حکومتوں کے مفروضے کے حامی حلقے اس پر جوابی دلیل یہ دیتے ہیں کہ حالیہ تجربے کے پیش نظر عام انتخابات کے بعد بننے والی نئی جمہوری حکومتیں ایسی قانون سازی کریں گی ، جس کی وجہ سے عدلیہ اور احتساب کے اداروں کے موجودہ اختیارات میں کمی آجائے گی اور ’’ احتساب کا موجودہ عمل ‘‘ جاری نہیں رہ سکے گا۔ اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے نگران حکومتوں کا دو سے تین سال تک ہونا ضروری ہے ۔ اس کے بعد سب ٹھیک ‘‘ چلنے لگے گا ۔ طویل دورانیے والی نگران حکومت کے مفروضے کے مخالفین ایک اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے بعد عام انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور مرکز صوبوں میں مخلوط یا کمزور حکومتیں تشکیل پا سکتی ہیں ۔ لہذا اس بات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ عدلیہ اور دیگر اداروں کے بارے میں وہ قانون سازی کریں گی ، جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ اگر ایسی قانون سازی ہونا ہوتی تو بہت پہلے ہو جاتی کیونکہ مرکز اور صوبوں میں موجودہ جمہوری حکومتیں اس پوزیشن میں تھیں ۔ سندھ میں صوبائی اسمبلی کے ذریعہ نیب کی صوبائی امور میں مداخلت ختم کرنے اور سندھ احتساب کمیشن کے قیام کے لئے دو بل منظور کرائے گئے ، جن پر گورنر سندھ نے اعتراضات لگا کر اسمبلی کو واپس کر دیئے۔ اگر سندھ اسمبلی چاہتی تو یہ دونوں بل دوبارہ منظور کر لیتی اور یہ قانون بن جاتے لیکن پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ان بلز پر نظرثانی کرے ۔ سندھ حکومت ابھی تک نظرثانی کر رہی ہے اور بل دوبارہ اسمبلی میں پیش نہیں ہوئے ۔ وفاق کی سطح پر ایسی قانون سازی کے لئے مشورے ہوتے رہے لیکن کسی کو جرات نہیں ہوئی۔ موجودہ جمہوری حکومتیں اگر اس طرح کی قانون سازی نہیں کر سکی ہیں تو آئندہ منتخب حکومتیں بھی نہیں کر سکیں گی ۔ اس مضبوط دلیل کے باوجود زیادہ مدت والی نگران حکومت کے مفروضے پر بحث جاری ہے ۔ مفروضے ماضی کے تجربات کی روشنی میں قائم ہوتے ہیں اور موجودہ حالات ان مفروضوں کو تقویت پہنچاتے ہیں ۔
عام لوگ جو مفروضے قائم کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ ان حلقوں کی طرف سے لوگوں کے ذہنوں میں ڈالے جاتے ہیں ، جو حلقے معاملات پر کنٹرول رکھتے ہیں ۔ ان میں سیاسی اور غیر سیاسی دونوں حلقے شامل ہیں ۔ یہ مفروضے حقائق کی زمین پر ہی نشوونما پا رہے ہوتے ہیں ۔ حقائق یہ ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دس سال کا ایسا سیاسی وقفہ ملا ، جس میں جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ۔ آئین کے آرٹیکل 58 ( 2 ) بی کی تلوار لٹکی ہوئی نہیں تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ آرٹیکلز 62 اور 63 موجود تھے لیکن اگر سیاسی قیادت میں کمزوریاں نہ ہوتیں تو یہ آرٹیکلز بھی غیر موثر ہوتے ۔ اس وقفے میں جمہوری حکومتوں نے وہ کچھ عوام کو نہیں دیا ، جس کی عوام توقع کر رہے تھے ۔ اس جمہوری وقفہ سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا ۔ عدلیہ اور دیگر اداروں کو موجودہ ’’ سرگرمی ‘‘ کا موقع سیاسی حکومتوں نے مہیا کیا کیونکہ ایک ادارہ کام نہیں کرے گا تو دوسرے ادارے کے لئے خلاپیدا ہو گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی قیادت نے اپنی سیاسی اور معاشی طاقت بڑھانے پر توجہ دی ، جس کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر تو مضبوط ہوئے لیکن سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں ۔ نگران حکومتیں بننے کے بعد سیاسی جماعتوں میں مزید توڑ پھوڑ نظر آ رہی ہے اور عام انتخابات کے دوران وہ ایسی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہیں ، جن کی وجہ سے انہیں متوقع نتائج حاصل نہ ہو سکیں ۔ سارے مفروضے سیاسی قیادت کی کمزوریوں ( اخلاقی اور سیاسی ) کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں اور یہ کمزوریاں ایک حقیقت ہیں ۔ آئندہ کیا ہوتا ہے ، اس کا انحصار ان قوتوں پر ہے ، جو ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگرچہ ماورائے آئین زیادہ مدت والی نگران حکومت کے آثار تو نظر نہیں آتے لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی قیادت سیاسی اور اخلاقی طو رپر بہت کمزور ہے یا نظرآتی ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین