• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا الیکشن۔18، ملک میں 70سالہ بے آئینی، فوجی اور متنازعہ منتخب حکومتوں کی سنگین آئینی خلاف ورزیوں، کھلم کھلا نفاذ قانون کے دوہرے معیار،بیڈ گورننس کے غلبے، حکمرانوں کی تباہ کن کرپشن اور قومی سیاست واقتدار پر گھڑے سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری کی مجموعی شکل، اسٹیٹس کو (موجود نظام بد) اور تبدیلی کی علمبردار نئی سیاسی قوت میں فیصلہ کن معرکہ ثابت ہوں گے یا ہر دو میں سیاسی محاذ آرائی جاری رہے گی؟
آج کا ’’آئین نو‘‘ اسی سوال کا تجز یا تی جواب ہے، یعنی پاکستان کے غیر معمولی حالات حاضرہ کی روشنی میں ملک کی سیاسی مستقبل قریب کی بنتی امکانی صورت کی منظر کشی ہے ۔
الیکشن 18 کے پس منظر کے طور پرموجودہ صورت حال کا غیر معمولی پہلو یہ ہے کہ آئین پاکستان کا جامہ لازمہ ’’احتساب‘‘ پہلی مرتبہ عملی شکل اختیار کر کے ابتدائی نتیجہ دیتا ہوا جاری و ساری ہے، دوسری جانب موجودہ اقتدار کی آئینی مدت ختم ہو رہی ہے، جمہوری عمل اور احتسابی عمل، دونوں رواں دواں ہیں کہ انتخابی معرکہ آرائی بھی آن پہنچی۔ آئین و قانون کی روشنی میں انتخابی عمل سے پہلے احتسابی عمل کا یہ معجزہ جمہوری عمل کو معطل کئے بغیر ’’پانامہ لیکس‘‘ کے باعث رونما ہوا۔اگرچہ اس سے قبل وکلا کی آئینی عدلیہ کے قیام کی تحریک نے ٹاپ ۔ ڈائون احتساب کو بمطابق آئین ایمپاورمنٹ حاصل کرتی سپریم کورٹ نے ممکن کردیا تھا ، جیسے منتخب وزیر اعظم (گیلانی) ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی حکم عدولی پر اپنا اعلیٰ ترین منصب گنوا بیٹھے اور پانچ سال کے لئے عوام کی نمائندگی کے آئینی حق سے محروم ہو گئے ۔ ان ہی کی کابینہ کے ایک وزیر (امور حج) بڑے اسکینڈل پر سزا یافتہ ہوئے اور کنبہ پروری پر کئی نا اہل وفاداروں کی اعلیٰ عہدوں پر تقرری کو جسٹس افتخار چودھری نے خلاف آئین و قانون قرار دیتے ہوئے روک دیا، گویا بالائی سطح سے احتسابی عمل بذریعہ عدلیہ شروع ہوا جس کی بھرپور تائید موجود قومی سیاسی ڈھانچے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور لیڈر آف دی اپوزیشن جناب نواز شریف نے کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ ا سکینڈل کی پیشی پر عدالت میں علامتی حاضری سے کی ۔
اب خود احتساب کی زد میں آکر اس تائیدو حمایت کو اپنی ’’سیاسی خطا‘‘ قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا، رکھتا ہے تو اس کا تجزیہ موجودہ برے دنوں میں میاں صاحب کے لئے خاصا تکلیف دہ ہو گا جبکہ وہ خود ہی خود کومسلسل جکڑتے جا رہے ہیں ۔
پاکستان میں ’’پاناما لیکس‘‘ کے اسٹیٹس کو کے لئے قدرتی آفت ہونے کی شہادت صدر مملکت کے کہنے کے لئے علاوہ ایسے بھی ملتی ہے کہ لیگس کے سب سے بڑے زیر عتاب، نواز شریف سمجھ ہی نہ پائے کہ ملک میں ظلم و نا انصافی پر مبنی نظام مسلسل کے خلاف قدرتی رد عمل شروع ہو چکا ہے،سو انہوں نے لیکس کی حقیقت کا ادراک نہ کرتے ہوئے اسٹیٹس کو کی بے پناہ طاقت پر انحصار کرتے ہوئے ’’پانامہ کیس‘‘ پر ملک گیر ہنگامے کو دبانے کے لئے از خود کیس روایتی سوچ سے سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا، وہ بھول ہی گئے کہ ان کے ہم منصب یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کیا ہو چکا ہے آج کی سپریم کورٹ کوئی ڈوگر یا قیومی تو ہے نہیں ۔ وگرنہ، پانامہ لیکس کے آشکار ہوتے ہی نیب کے چیئر مین قمر الزمان، ایس ای سی پی کے ظفرحجازی، وفا شعار وزیر داخلہ نثار چودھری کے ماتحت ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور ایف بی آر کے بابو دکھاوے کو ہی اپنے آئینی کردار میں نفاذ قانون کے لئے خود کو شہباز شریف کی طرح سرگرم کر لیتے، جیسا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹائون کے فوراً بعد کچھ دن تک فراہمی انصاف کا منبع ومرکز معلوم دے رہے تھے لیکن ان کے معاون بڑے بابو (جو وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے بعد سانحہ کے بڑے ذمہ دار کے طور زبان زد عام تھے) آرام سے مزید آسائشی زندگی کے لئے ملک راہ عدم ہوئے اور رانا صاحب نے وزارت گنوا کر بھی ثابت کیا کہ وہ تو رانا ہی ہیں اس کے برعکس میاں نواز شریف اتنے تجربےاتنے بڑے منصب اور جملہ اقسام کی بھرپور معاونت و مشاورت کے باوجود آ بیل مجھے مار کے مترادف شروع ہونے والے ہر احتسابی موڑ پربھٹکتے ہی رہے، صراط مستقیم دکھایا اور بنایا جا رہا تھا، وہ نہ مانے اور قدرتی آفت کو اسٹیٹس کو سے حاصل طاقت اور اہمیت سے بھسم کرنے کے مغالطے میں ہی رہے۔
اب جو انہوں نے اپنی پاور بیس ناجائز بینی فشریز اور سماجی پسماندگی پر کچھ بھرے بھرے جلسے کر لئے تو ان کا راہ راست پر ہونے کا یقین بڑھ گیا جو خطرناک نکلا اور نکل رہا ہے۔
ان کا دفاعی سیاسی بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور اپنے علاقائی سیاسی اتحادیوں کی تاریخی سیاسی اور موجود متنازعہ امتیازات کی جانب عمومی زاویہ نگاہ کی پرواکئے بغیر میاں صاحب جس طرح بار بار اپنے (کوئی نئے) نظریاتی روپ دھارنے کا پیغام دے رہے ہیں، وہ ن لیگ میں ’’دوسری جانب پرواز‘‘ کو جھکڑ میں تبدیل کر سکتی ہے، یہ چل پڑا اور وفا شعار آندھی سے بگولے بننے لگے تو فقط نظریہ پاکستان پر پاکستانی اسمبلیوں میں بیٹھ کر بھی تحفظات میں مبتلا علاقائی سیاست کے بت کچھ سہارا نہیں بنیں گے جی ٹی روڈ کے دونوں جانب تو اپنے بڑے ووٹ بینک میں دراڑیں تو ’’چپکے سے کی گئی‘‘ ناکام اور بھڑکتی واپسی ہوئی تو قانون سازی سے ہی پڑ گئی تھیں ۔اب میاں صاحب کا نیا نظریاتی تشخص جس کی وضاحت وہ خود کر سکتے ہیں ان کا میڈیا سیلیا ان کے علاقائی نظریاتی ساتھی یہ صورت انہیں تو نہیں اب ان کی بچی کھچی ن لیگ کو کیا دے گی؟ وہ گھاٹا ہی گھاٹا لگتا ہے۔
بلاشبہ ن لیگ کے ہر دور میں اختیار کئے اسٹیٹس کو اور اسے مسلسل بڑھاتے رہنے کی صلاحیت اتنی تو ہے کہ تحریک انصاف بھی ’’لوہے کی کاٹ لوہے سے‘‘ کی تھیوری کو وقتی اور جزوی طور اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔ وہ خیبر پختونخواہ میں اقتدار میں آ کر بھی اس کے سائے سے مکمل بچ نہ پائی، لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ خود عمران خان اور ان کے حامیوں نے آئینی و قانونی عمل کی روشنی میں جاری احتسابی عمل کے متوازی جمہوری عمل میں ،مقابل اسٹیٹس کو کے مقابل جزوی طور پر یہ ہی رنگ اختیار کر لیا ہے جو شاید کسی حد تک ضروری بھی ہے لیکن اس کی زیادتی کوئی نیا رنگ نہ دکھادے جو عمران کی تبدیلی کی راہ کو مشکل بنا دے۔بہرحال خان میں ’’گندے انڈے‘‘ ٹوکری سے باہر پھینکنے کی ہمت بھی خوب ہے۔ نازک وقت، میں یہ اقدام پر خطر تو ہے لیکن اس نے خاں صاحب کی سیاسی دیانت اور اس کی مستقبل کے لئے کمٹمنٹ کو چار چاند تو لگا دئیے ہیں۔ حق کا احساس ہوتا تو ہے بلوچستان کی موجودہ صورتحال میںسینٹ بلوچی قیادت کے حوالے کرنے کے جرأت مندانہ فیصلے کے بعد یہ چھکا اور درست حالت میں فلیکچوئٹ کرتی انتخابی سیاسی مینجمنٹ بہت سی کمیاں خامیاں ہوتے ہوئے بھی خاں صاحب کو دریا پار کرا سکتی ہے ۔ صورتحال سازگار یوں بھی ہے کہ میاں صاحب ڈیزاسٹرپر ڈیزاسٹر کر رہے ہیں اور جو کچھ کر چکے وہ اب مرمت کے قابل نہیں اوپر سے عدلیہ کی آئینی اختیارات کے استعمال سے بڑھتی ایمپاورمنٹ اور نیب کی کارکردگی میں اضافہ اور عوام میں اعتماد کہ اب خبر ہے کہ نیب نے مشرف کےبھی احتساب کا فیصلہ کر لیا۔ایسے تشکیل پاتے حالات میں مستقبل قریب کیسے سیاسی محاذ آرائی میں مبتلا رہے گا، اگر کہیں الیکشن کمیشن بھی مطلوبہ درجے پر ایمپاورڈ ہو گیا اور پولنگ ڈے روایتی نہ رہا تو پاکستان بحرانوں سے نکل جائے گا۔
ہمارے کروڑوں غرباءتو انصاف کو ترس گئے، نامی گرامی اور بڑے بڑوں کو انصاف بمطابق آئین مل گیا تو پاکستان کا مستقبل تابناک ۔ ہم نہ سہی اگلی نسل اور نسلیں ہی سہی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین