• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے جج صاحبان گزشتہ کئی سالوں سے عوام کے عام مسائل جو انتظامیہ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کوحل کرنےچاہئے تھے ،ان کو حل کرنے کی کوششیں کررہےہیں ۔ایسا دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتا ۔کیا ملک میں صاف پانی دلانا عدلیہ کا کام تھا ۔کیا کراچی کی ہائی رائز بلڈنگیں رکوانا عدلیہ کی ذمہ داری تھی ۔جبکہ بڑے بڑے دیگر شہروں بشمول لاہور ،ملتان،پشاور،اسلام آباد ،فیصل آباد کے شہریوں کو بھی صاف پانی میسر نہیں ہے۔خود چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب ان شہروں میں جاکر ان شہروں کی انتظامیہ اور وزیراعلیٰ کو بار بار متنبہ کرچکے ہیں۔صرف ایک دن قبل ہی انہوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے جواب طلبی کی جو روز اول سے پی ٹی آئی کے آنے کے بعد تعینات رہے ہیں ۔ایک اسکول یا اسپتال نہیں بنواسکے۔ لمبی ترین مدت کے ریکارڈہولڈر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ،سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کے دور کی سڑکیں ،بجلی ،گٹراور پانی کی نکاسی کانظام ان کے جانے کے بعد سنبھال سکے ؟جواب میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔اگر ملے گا تو اربوں روپے کے پانی بیچنے کے ثبوت ملنے کے باوجود شرجیل میمن جیل میں یا اسپتال میں آرام کرتے ملیں گے ۔کرپشن کاریکارڈ تمام صوبوں میں ہر ہر سطح پر اپنے عروج پر جاچکا ہے۔عدلیہ پوچھتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں کیوں ناپید ہیں ۔ڈاکٹر صاحبان کیوں نظر نہیں آتے ۔اسپتالوں کی تمام مشینیں کیوں خراب پڑی ہیں ۔اسپتالوں کے بستروں پر تین تین مریض کیسے راتیں گزارتے ہیں ۔عدلیہ دوائیوں کی قیمتیں کیوں خود کنٹرول کرنا چاہتی ہے ۔ایک ہاتھ سے وہ سیاستدانوں کی کرپشن کو نیب کے حوالے کرتی ہے تو دوسرے ہاتھ سے بیوروکریٹس کے گھر سے سونا، بانڈ، نقدیاں برآمد ہوتی ہیں ۔جو ملک تعلیم کے میدان میں سب سے آگے ہوتا تھا ۔آج اُس ملک میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اجازت نامے کروڑوں روپے رشوت کے بغیر نہیں ملتے ۔
صوبوں کے گورنروں سے پوچھا جائے کہ گزشتہ 50سالوں میں کتنی یونیورسٹیاں کھلیں۔کتنے میڈیکل کالجوں کا اجراہوا۔معذرت کے ساتھ ہمارے صدر جناب ممنون حسین صاحب نے کتنی یونیورسٹیوں میں جاکر کانووکیشن اٹینڈ کئے ؟ان کے پاس تو وقت تھا ۔کیا عدلیہ بچھڑے ہوئے والدین کے بچوں اور جھلسی ہوئی مظلوم ملازمین لڑکیوں کا سوموٹو ایکشن لیتی رہے گی ۔کیا چیف جسٹس صاحب اسپتالوں کا دورہ کرکے مریضوں کی عیادت اور اُن کے مسائل دیکھنے میں اپنا قیمتی وقت گزاریں گے ۔کیا عدلیہ الیکشن اور کیئر ٹیکر حکومت کا معاملہ سنبھالنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ سیاستدانوں اور فوج کی کشیدگی کو ختم کرانے کے لئے مارشل لا روکنے کا یقین دلائےگی ۔ تو پھر بیوروکریٹس کی اتنی بھر مار کس لئے ہے۔
ہر صوبے میں قطار درقطار صوبائی وزراء کس لئے بھرتی کررکھے ہیں ۔اُس پر مرکزی وزراء کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ کھلتے ہی کیوں بند کردیا گیا۔ جہاں شہر کے عوام تو صاف پانی کو ترس رہے ہوں وہاں ائیر پورٹ کے نلکوں سے پانی کی دھاریں چھتوں کی طرح پھوٹ پڑیں۔ اگر عدلیہ اس میں گھری رہی تو ان لاکھوں مقدموں میں جو برسوں سے عدالتوں میں سڑ رہے ہیں اور مظلوم عوام ان عدالتوں کے دھکے کھار ہے ہیں اُن کی داد رسی کون کرے گا۔جہاں ججوں پر وکلاء اپنا غصہ اتار رہے ہوں ۔عدالتوں میں بھی امن کے بجائے کشت و خون ہورہاہوتو کس کی بدنامی ہوگی ۔کیا عدلیہ قاتل امریکی سفارتی اہلکار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا آرڈر کرے گی؟ کیا عدلیہ کے ججز اپنے الزامات کی صفائیاں پیش کرتے ہیں ؟
صدر مملکت کابیان کہ ادارے اپنے دائروں میں رہ کر کام کریں یہ کس کس کی طرف اشارے دلوائے گئے ہیں ۔اب تو ان کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر کھلی تنقید کرکے اپنے کاموں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہا ہے ۔جو تمام صوبوں کابجٹ اپنے صوبے پر لگاکر اترارہا ہے جس کے جواب میں ایک صوبے کا وزیراعلیٰ جب بجلی کا بحران حل نہیں کرتا تو کہتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر میرے گھیرائو کے بجائے وزیراعظم ہائوس کا گھیرائو کریں میں قیادت کروں گا۔ حد ہوگئی ڈھٹائی کی کوئی الزامات بھی سننے کے لئے تیا رنہیں ہے ۔ابھی نئی کیئر ٹیکر حکومت وجود میں نہیں آئی۔درجنوں ایم این اے ،ایم پی اے ،سینیٹرز حضرات بلوں سے نکل کر دوسری سیاسی جماعتوں میں کودکود کرآجارہے ہیں ۔اور دونوں طرف لوٹوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔اللہ ہی جانے لوٹا ان میں کون ہے۔ بے ضمیر کون ہے ۔پارٹی کا سربراہ جو فخر سے گلے لگارہا ہے یا جو حسرت سے جاتا دیکھ رہا ہے کل تک باضمیر آج دوسری پارٹی میں بے ضمیر کیسے ہوگیا۔جب خود عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کے امیدوار کو سینیٹ کا چیئرمین بنوائیں تو وہ ٹھیک ہے اور اگر انہی کے پارٹی کے ایم پی اے ازخود ڈیل کرکے ووٹ دیں تو وہ بے ضمیر کہلائیں گے ۔مجھے ڈر ہوچلاہے کہ کسی دن سابق صدر آصف علی زرداری کی پارٹی میں عمران خان کی پارٹی ضم ہوکر مسلم لیگ ن کے خلاف اکٹھے الیکشن نہ لڑے۔ یہ کام باآسانی ہمارے مولانا فضل الرحمٰن انجام دے سکتے ہیں اورنعرہ یہ لگے گا کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی بھائی بھائی مسلم لیگ ن کتھوں آئی ۔یاد رہے مولانا فضل الرحمٰن واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے لگ بھگ سب کا نمک کھایا ہوا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین