• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل صوبہ پنجاب میں اتائیوں کے خلاف زبردست مہم جاری ہے۔ 70برس بعد حکومت کو عقل تو آئی۔ ویسے یہ عقل حکومت کو نہیں آئی بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی اتائیوں کے خلاف جاری مہم اور رپورٹوں کو دیکھ کر فوری حکم جاری کیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر پورے ملک میں اتائیوں کو گرفتار کرلیا جائے اور انہیں رپورٹ دی جائے۔ خیر ایک ہفتے میں تمام اتائیوں کو گرفتار کرنا ممکن نہیں البتہ کچھ عرصہ میں سارے اتائی گرفتار کئے جاسکتے ہیں۔
عزیز قارئین! آپ کے لئے یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ پاکستان میں چار لاکھ اتائی ہیں اور دو لاکھ ڈاکٹرز ہیں۔ ملک کی گلی گلی میں اتائی موجود ہیں جو برسہابرس سے اپنے اڈے چلا رہے ہیں۔ ان اتائیوں سے ایسے پڑھے لکھے لوگ بھی علاج کراتے رہے ہیں اور کرا رہے ہیں جو حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور فائز رہے ہیں۔بہت سارے لوگوں کو ہم خود جانتے ہیں۔ ایک وزیربھی ایک اتائی سے علاج کراتے رہے۔
اتائیت کے بارے میں اس وقت کچھ لوگوں کی رائے کچھ یوں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتائی کم از کم لوگوں کو صحت کی سستی سہولتیں تو فراہم کر رہے ہیں لہٰذا انہیں کام کرنے دیا جائے۔ حالانکہ ہمیں اس سوچ اور خیال سے بالکل اختلاف ہے۔ اتائی تو لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ حکومت لوگوں کی صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرے اس سوچ کو فروغ دینا کہ اتائی کم از کم چھوٹا موٹا علاج اور سرجری تو کر رہے ہیں، بالکل غلط سوچ ہے۔ ملک میں اتائیت ایک ناسور کی طرح پھیل رہی ہے۔ ایک طرف پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اتائیت کے خلاف جہاد کر رہا ہے تو دوسری طرف ملک کے دیگر صوبوں میں اتائیت کے خلاف ایکشن نہیں ہو رہا۔ حالانکہ سندھ اور آزاد کشمیر میں ہیلتھ کیئر کمیشن بن چکے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ اتائیوں کے ہاتھوں کئی لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، کئی زندگی کی بازی ہار گئے۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اب تک 8900اتائیوں کے اڈے بند کر چکا ہے اور انہیں 6کروڑ 65لاکھ 47ہزار روپے کا جرمانہ کر چکا ہے۔ پی ایچ سی کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 80ہزار اتائی مریضوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ اس حوالے سے فیصل آباد پہلے نمبر پر ہے جہاں 22ہزار 500 اتائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ لاہور دوسرے نمبر پر ہے جہاں 14ہزار 500 اتائی ہیں اور ساہیوال تیسرے نمبر پر ہے جہاں 14ہزار اتائی پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ اتائی علاج تو دور کی بات مریضوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ مثلاً ایک ہی سرنج سے کئی کئی مریضوں کو انجکشن لگا رہے ہیں اور اس طرح ہیپا ٹائٹس بی، سی اور ایڈز اور کئی دیگر خطرناک بیماریاں ایک مریض سے دوسرے مریض کو منتقل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک رپورٹ آئی ہے جس کے مطابق سرگودھا میں 150ایڈز کے مریضوں سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ علاقے کے اتائیوں سے انجکشن لگواتے رہے جس کی بنا پر انہیں ایڈز ہوگئی۔ اس وقت سب سے زیادہ بیماریاں پھیلانے کا باعث اتائی اور خصوصاً اتائی ڈینٹل سرجن بن رہے ہیں۔ یہ ڈینٹل ٹیکنیشین مریضوں کا علاج تو کیا کریں گے، انہیں بیمار ضرور کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی رپورٹ میں سڑک پر بیٹھے ہوئے ایک اتائی ڈینٹل سرجن سے علاج کروانے والے شخص سے بات کی گئی تو اس نے بتایا کہ دانتوں کا علاج اتنا مہنگا ہے اور سڑک پر بیٹھا ہوا یہ اتائی ڈینٹل سرجن سو ڈیڑھ سو روپے میں میرا علاج کر دیتا ہے۔ پنجاب ڈینٹل اسپتال کے حالات انتہائی برے ہیں۔ وہاں کوئی پرسان حال نہیں۔
اتائیت کیوں فروغ پا رہی ہے؟ کبھی کسی نے اس پر غور کیا۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو وہ توجہ نہیں ملتی، گھنٹوں خوار ہونے کے بعد بھی ان کے معمولی ٹیسٹ نہیں ہوتے، غریب لوگ اپنی دیہاڑی بھی توڑتے ہیں، دفتروں میں کام کاج چھوڑ کر آتے ہیں پھر بھی علاج نہیں ہوتا۔ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کا رویہ بھی کچھ اتنا اچھا نہیں۔ دوسرے فیملی فزیشنز ہر جگہ میسر نہیں چنانچہ لوگ اتائیوں سے علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ 70برس کا گند ایک رات میں تو ٹھیک ہونے سے رہا۔ اتائیت کو ختم کرنے کا ایک حل اور بھی ہے۔ حکومت تمام ریٹائرڈ پروفیسرز اور ڈاکٹرز کی فہرست بنائے اور جو ڈاکٹر میڈیکل کالجوں میں بنیادی سائنس کے مضامین پڑھاتے ہیں یہ ڈاکٹرز سو فیصدی اس قابل ہیں کہ وہ فیملی فزیشنز کے لیول کا علاج کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایم بی بی ایس کے بعد بھی مختلف ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیں۔
ہمیں یاد ہے غالباً کنگ ایڈورڈ میڈیکل کے پروفیسر آف فارماکالوجی شام کو لاہور کے شمالی علاقے میں بطور جی پی پریکٹس کیا کرتے تھے۔ اگر عوام کو اتائیوں سے بچانا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ محکمہ صحت اور پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن مل کر ایسے ریٹائرڈ پروفیسروں اور ڈاکٹروں کو تلاش کرے جو مریضوں کا علاج کرنے کے خواہشمند ہیں اور انہیں کوئی لالچ بھی نہ ہو ۔ ان کے اندر خدمت کرنے کا جذبہ ہے۔ ماضی میں بے شمار ایسے پروفیسرز کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ماضی میں بے لوث ہو کر بغیر معاوضہ کے میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹس کو پڑھایا بھی اور مریضوں کو بھی دیکھا۔ کئی غیر ممالک میں ایسا سسٹم موجود ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت ایک پول بنائے جس میں تمام ایسے ریٹائرڈ پروفیسروں اور ڈاکٹروں کو جو میڈیکل کالجوں اور مختلف سرکاری اسپتالوں سے ریٹائر ہو چکے ہیں انہیں شامل کرےلیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بھی ایسے ریٹائرڈ پروفیسروں اور ڈاکٹروں کو کچھ نہ کچھ معاوضہ ضرور دے اور ویسے بھی کوئی پروفیسر کبھی بھی ریٹائر نہیں ہوتا کیونکہ میڈیکل پروفیشن میں وہ ایک طویل تجربے اور اعلیٰ تعلیم کے بعد پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوتا ہے۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے اتائیوں کے خلاف جو کریک ڈائون شروع کیا ہے اس میں کوئی نرمی نہ برتی جائے۔ہم یہاں پر ڈاکٹر محمد اجمل خاں، ڈاکٹر ریاض احمد تسنیم، ڈاکٹر مشتاق احمد سلہریا اور ڈاکٹر ریاض چوہدری کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں جو بے خوف و خطر اتائیوں کے اڈے بند کررہے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بے شمار میڈیکل اسٹور والے اور کیمسٹ بھی مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اور یہ بھی اتائیت کے زمرے میں آتا ہے چنانچہ ان کے خلاف بھی بھرپور ایکشن لیا جائے ۔
ایسا سسٹم بنایا جائے کہ کسی ریٹائرڈ پروفیسر یا سینئر ڈاکٹر کو پانچ چھ علاقوں کا ایک ڈویژن بنا کر دیا جائے جو سپروائز کرے اور اس کے انڈر ینگ ڈاکٹر یا جی پی حضرات یا فیملی فزیشن کام کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ فیملی فزیشنز کے ساتھ مل کر اتائیت کے خلاف بھرپور تحریک چلائے اور فیملی فزیشنز کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی سروسز کو بڑھائیں۔
یہ بات افسوس ناک ہے کہ سندھ اور کراچی میں اتائیت بہت زیادہ ہے، چنانچہ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو بھرپور کام کرنا چاہئے۔اتائیت کے خاتمے کے لئے دوسرا حل یہ ہے کہ حکومت ماضی کی طرح ایل ایس ایم ایف کے کورسز اور اسسٹنٹ ڈاکٹر اور اسسٹنٹ سرجنز کے کورسز شروع کرائے۔ کم از کم یہ کورس کرنے والے اتائیوں سے ہزار درجے بہتر ہوں گے اور انہیں میڈیکل کی اقدار کا پتہ ہوگا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین