• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کی پوری آئینی معیاد میں پہلے انتخابی دھاندلیوں کے الزام میں سیاسی مہم جوئی اور پھر پاناما پیپرزکے حوالے سے حکمراں خاندان کے خلاف احتجاجی تحریک اور عدالتی احتساب کی بناء پر رونما ہونے والی صورتحال میں بعض سیاسی رہنما امپائر کی انگلی اٹھنے کی پیشین گوئیاں کرکے یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر وطن عزیز میں جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی جائے گی ۔ حتیٰ کہ پچھلے دنوں چیف جسٹس سے بھی مارشل لا لگانے کا باقاعدہ مطالبہ کرڈالا گیا اور اس کیلئے جوڈیشل مارشل لا کی ناقابل فہم اصطلاح بھی ایجاد کرلی گئی۔چیف جسٹس کی جانب سے اس کی بلاتاخیر پرزور تردید کرتے ہوئے صراحت کی گئی کہ آئین میں ایسے کسی مضحکہ خیز اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ، جبکہ موجودہ آرمی چیف بھی دو ٹوک لہجے میں جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے عنوان سے ان کی جو سوچ منظر عام پر آئی ہے، اس میں امن اور ترقی کیلئے جمہوریت کے استحکام کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود بعض عناصر قوم کو آئے دن انتخابات کے التواء اور مارشل لا کے نفاذکی خبریں سناتے رہتے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہفتے کے روز لاہور میں علامہ اقبال کے یوم وفات پر ہونیوالی تقریب سے اپنے خطاب میں ایک بار پھر ملک میں مارشل لا کے نفاذ کی خبروں یا اس ضمن میں عدلیہ پر کسی قسم کے دباؤ کی قطعی غیرمبہم الفاظ میں تردید کرکے جمہوریت کے تسلسل کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کی کوششوں پر سخت گرفت کی ہے۔ پاکستان کیلئے جمہوریت کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کا انتخاب قرار دیتے ہوئے تقریب کے شرکاء پر اپنا نقطہ نظر انہوں نے ان الفاظ میں واضح کیا کہ ’’عدلیہ مکمل طور پرآزاد ہے، میرا وعدہ ہے ہم کسی کا دباؤ قبول نہیں کرینگے،سن کر حیرت ہوتی ہے، جب کچھ اینکروں کو بھونچال آتا ہے کہ مارشل لا آرہا ہے کون لگا رہا ہے مارشل لا؟ کس نے لگانے دینا ہے مارشل لا؟ کس میں ہمت ہے؟ پہلے میں نے کہاکہ اگر ایسا ہوا تومیں نہیں ہوں گا لیکن اب کہتا ہوں کہ جس دن شب خون مارا گیا تو سپریم کورٹ کے 17جج نہیں ہونگے، یہ 17جج مارشل لاء نہیں لگنے دیں گے۔‘‘ ملک کی عدلیہ اور فوج کے سربراہوں کی جانب سے جمہوریت کی حمایت کی ان واضح یقین دہانیوں کے باوجود سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جو کچھ ہوا ، امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس حوالے سے جو انکشاف کیا ، پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس پر جو سوال اٹھایا ، نیز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی الیکشن وقت پر ہونے کے یقین کا اظہار کرنے کے باوجودگزشتہ روز ہی جو یہ کہا کہ ادارے آپس میں لڑرہے ہیں اور بعض افراد جمہوری عمل میں مداخلت کررہے ہیں، یہ وہ معاملات ہیں جو بہرحال اب بھی شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔ اسکے باوجود جمہوریت کے تسلسل کیلئے چیف جسٹس کے عزم صمیم ،کسی غیرآئینی کارروائی کی صورت میں سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے منصب چھوڑ دینے کے اعلان اور خود آرمی چیف کی جانب سے جمہوری نظام کے استحکام کی مستقل تائید و حمایت سے قوم کو یہ اعتماد حاصل ہوتا ہے کہ جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی کوئی کوشش اب اس ملک میں کامیاب نہیں ہوگی ۔ بلاشبہ قوم کی ترقی اور خوشحالی ہی نہیں ملک کی بقا وسلامتی کیلئے بھی اس متفقہ آئینی نظام کا جاری رہنا ناگزیر ہے جو قومی اتحاد و یکجہتی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ جمہوریت کا تسلسل ہی عوام کو حکمرانوں کے مسلسل احتساب اور ملک کو بتدریج زیادہ بہتر قیادت کے انتخاب کا موقع فراہم کرتا ہے‘ اسی عمل سے عوام کو ان کے وہ تمام حقوق ملتے ہیں جن کیلئے آج ہماری عدلیہ کو از خود کارروائیاں کرنا پڑرہی ہیں جبکہ جمہوری عمل میں غیرجمہوری قوتوں کی مداخلت ملک کو برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہے جس کے واضح شواہد ہماری اپنی ستر سالہ تاریخ میں بھی موجود ہیں، لہٰذا ملک کے محفوظ اور روشن مستقبل کیلئے جمہوریت پر مکمل اتفاق لازمی ہے۔

تازہ ترین