• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (NIM) جو حکومتی افسران کو 20 ویں گریڈ میں پروموشن کیلئے ٹریننگ کورسز منعقد کرتا ہے، ملکی اہمیت کے اہم منصوبے اوبور (OBOR) اور سی پیک پر دی جانے والی اپنی پریذنٹیشن پر گفتگو کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ آئندہ کالم میں اپنے شریک اسپیکر میرے دوست وفاقی سیکریٹری منصوبہ بندی شعیب صدیقی کی اسی موضوع پر شرکا کو دی جانے والی پریذنٹیشن بھی قارئین سے شیئر کروں گا تاکہ پرائیویٹ سیکٹر اور حکومت کا موقف واضح ہوسکے۔ کالم میں دیئے جانیوالے اعداد و شمار کی حکومتی ویب سائٹ www.cpec.gov.pk پر تصدیق کی جاسکتی ہے۔
چین کی مجموعی تجارت 3 کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روٹ عظیم منصوبے میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں پاکستان سمیت 20 ممالک میں 56 اسپیشل اکنامک زونز کا قیام شامل ہے جس سے 85 ملین ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ اس مقصد کیلئے چین نے 5 ہزار غیر ملکی سائنسدانوں اور انجینئروں کو ٹریننگ دی ہے۔ پاکستان کےقومی پالیسی ویژن 2025ء میں علاقائی روابط اور جدید انفرااسٹرکچر ویژن 2025ء کا ساتواں ستون ہے جبکہ اوبور اور چین کا آئندہ 5 سالہ منصوبہ بھی علاقائی روابط پر فوکس کیا گیا ہے اور اس طرح اوبور، سی پیک اور پاکستان ویژن 2025ء دونوں ممالک کی پالیسیوں کا اہم حصہ ہے۔ چین نے 2013ء میں پاکستان کے ساتھ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامک سفر کا آغاز کیا۔ پاکستان میں اس عظیم منصوبے کی فوکل منسٹری وزارت منصوبہ بندی، ڈویلپمنٹ اور ریسرچ (MPDR)جبکہ چین میں نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن (NDRC) اس عظیم منصوبے کا متعلقہ ادارہ ہے۔
سی پیک کے اہم منصوبوں میں پہلے نمبر پر متبادل توانائی جس میں کوئلے، پانی، ہوا، سورج، ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے اور اس کی ترسیل کے ٹرانسمیشن لائنز کے منصوبے، دوسرے نمبر پر انفرااسٹرکچر منصوبوں میں روڈ، ریلوے، فضائی روابط اور آپٹک فائبر کے ذریعے ڈیٹا کی منتقلی، تیسرے نمبر پر گوادر پورٹ کی ترقی اور علاقے میں سماجی اور معاشی منصوبوں کا قیام اور چوتھے نمبر پر صنعتی تعاون جس میں گوادر فری زون اور دیگر انڈسٹریل پارک شامل ہیں۔ سی پیک کے تمام منصوبوں کی تکمیل 2014ء سے 2030ء تک ہونی ہے جن میں 2014-20ء تک شارٹ ٹرم (Early Harvest Projects)، 2021-25ء تک میڈیم ٹرم اور 2026-30ء تک طویل المیعاد منصوبے ہیں۔ انرجی منصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹر کی آئی پی پی طرز پرسرمایہ کاری پر 34.7 ارب ڈالر، انفرااسٹرکچر اور سڑکوں کی تعمیر پر 4.2 ارب ڈالر (حکومتی رعایتی قرضہ)، ریلوے نیٹ ورک پر 8.2 ارب ڈالر اور گوادر پورٹ پر7.8 ارب ڈالر (گرانٹ) بلاسودی قرضے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کی مجموعی سرمایہ کاری تقریباً 48 ارب ڈالر بنتی ہے۔ انرجی کے شارٹ ٹرم منصوبوں میں زیادہ تر منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور جون 2018ء تک تقریباً 10,000 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کریں گے جس میں پورٹ قاسم میں امپورٹیڈ کول سے چلنے والا 1320 میگاواٹ کا بجلی گھر اور ساہیوال میں 1320 میگاواٹ کے بجلی گھر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 50 اور 100 میگاواٹ کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے کئی منصوبے جھمپیر اور گھارو میں 2017ء سے بجلی پیدا کررہے ہیں جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ کا کافی حد تک خاتمہ ہوا ہے۔
سی پیک کے ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر سیکٹر منصوبوں جن کی مجموعی مالیت 6.1 ارب ڈالر ہے، میں پشاور کراچی موٹر وے (ملتان سکھر سیکشن) اور رائی کوٹ اسلام آباد سیکشنز تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ریل سیکٹر کے ML-1 لائن کی توسیع جن کی مالیت 8.2 ارب ڈالر ہے، مذاکراتی مرحلے میں ہے۔ ماس ٹرانزٹ منصوبوں میں کراچی سرکولر ریلوے اور اورنج لائن لاہور کے منصوبے بھی مذاکراتی مرحلے میں ہیں۔ گوادر جسے سی پیک کا جھومر کہا جاتا ہے، کے منصوبے تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہیں جس میں گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، گوادر فری زون، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، گوادر میں صاف پانی کی سپلائی، اسپتال، ووکیشنل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اور گوادر اسمارٹ سٹی ماسٹر پلان شامل ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید جو سینیٹ کی سی پیک پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ حاصل بزنجو جن کا تعلق بلوچستان سے ہے گوادر کی ڈویلپمنٹ میں براہ راست شامل ہیں کو میں نے کراچی میں حالیہ غیر رسمی ملاقات میں بتایا کہ گوادر پلاٹوں کا کھیل نہیں، گوادر کو ڈویلپ دینے کیلئے شہر کو ڈویلپ کرنا ہوگا، گوادر میں پینے کا صاف پانی اور دیگر سہولتیں مقامی باشندوں کو جلد از جلد فراہم کرنی ہوں گی جس پر انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔ میرے ساتھ آباد کے چیئرمین عارف جیوا نے گوادر شہر کو ڈویلپ کرنے کیلئے پلاٹ کی قیمت میں کم قیمت مکانات دینے کی پیشکش کی۔
سی پیک کے اہم منصوبوں میں ملک میں اسپیشل اکنامک زونز کا قیام ہے جو معیشت میں گروتھ اور ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے۔ سی پیک کے تحت تمام صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا میں مجموعی 9 اسپیشل اکنامک زونز کے قیام کی منظوری دی گئی ہے جن میں سندھ میں دھابیجی ٹھٹھہ، پنجاب میں فیصل آباد، خیبرپختونخوا میں M-1 رشاکائی ، بلوچستان میں بوستان، گلگت بلتستان میں گلگت اسپیشل اکنامک زون، وفاقی حکومت کے تحت ICT اور پورٹ قاسم، آزاد کشمیر میں میر پور انڈسٹریل زون اور فاٹا میں مہمند ماربل سٹی شامل ہیں۔ ان علاقوں میں خام مال اور ہنرمند ورکرز کی دستیابی کے حساب سے صنعتیں لگائی جائیں گی۔ حکومت پاکستان نے دنیا کے سرمایہ کاروں کو ان اسپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کیلئے پرکشش مراعات دی ہیں۔
چین پیداواری لاگت اور اجرتوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی صنعتیں جس میں زیادہ لیبر درکار ہے، کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ چین کے ویسٹرن صوبے کاشغر اور گوادر پورٹ کے مابین انفرااسٹرکچر مکمل ہوجانے کے بعد چین کیلئے ان صنعتوں کو پاکستان میں سی پیک اسپیشل اکنامک زونز میں منتقل کرنا آسان ہوگا جس سے پاکستان میں بے شمار نئی ملازمتوں اور ایکسپورٹ کے مواقع پیدا ہونگے۔ چین میں پیمانے کی معیشت (Economy of Scale)بہت بڑی ہے۔ مثال کے طور پر چین میں ایک عام اسپننگ مل 5 لاکھ سے 10 لاکھ اسپنڈلزسائز کا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں عام اسپننگ مل صرف 50 سے 70 ہزار اسپنڈلز سائز کا ہوتا ہے۔
سی پیک کے طویل المیعاد منصوبوں کے اہم ستونوں میں روابط، توانائی، صنعت، زراعت، سیاحت، فنانس اور غربت میں کمی شامل ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد سستی بجلی اور جدید انفرااسٹرکچر سے ملک میں معاشی ترقی ہوگی جس سے ملکی جی ڈی پی گروتھ میں 2 سے 3 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ گوادر پورٹ کے ذریعے تجارت سے لاجسٹک کی لاگت اور ٹرانزٹ ٹائم میں خاطر خواہ کمی ہوگی جس سے پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کو فروغ حاصل ہوگا اور پاکستان میں تقریباً 4 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ زرعی شعبے میں پاکستان خطے میں سب سے کم فی ایکڑ پیداوار دینے والا ملک ہے، زرعی شعبے میں تعاون اور جدید بیجوں کے استعمال سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا، ہائیڈرو منصوبوں کی تکمیل سے ہم سستی بجلی سپلائی اور پانی کا ذخیرہ رکھنے کے قابل ہوسکیں گے جو ہمارے مستقبل کے اہم چیلنجز میں شامل ہے۔ چین کے صنعتی تعاون سے ہم ان کے انسانی وسائل کی بہتر کارکردگی، تکنیکی جدت اور مارکیٹنگ نیٹ ورک کے ذریعے ملکی ایکسپورٹس بڑھا سکیں گے لہٰذاسی پیک نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطے کیلئے خوشحالی کا عظیم منصوبہ ہے جس کیلئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین