• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منیر نیازی نے جانے کس تناظر میں کہا تھا ’’میں جس سے پیار کرتا ہوں ،اسی کو مار دیتا ہوں ‘‘لیکن تبدیلی سرکارنے اس شعر کو حرز جاں بنا لیا ہے اوران کی محبت کا پیمانہ بھی کم وبیش یہی ہے ۔تحریک انصاف کی جانب سے صحت اور تعلیم کو اولین ترجیح قرار دیا گیا تو ان دونوں شعبوں کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہو گئی ۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ،تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرکے داد سمیٹی گئی ،گھر آیا استاد جیسی مہمات کے ذریعے یہ ڈھنڈورا پیٹنے کی کوشش کی گئی کہ تعلیمی انقلاب برپا ہونے کو ہے لیکن آج پانچ سال بعد بھی انقلاب کے خواب محض اِک سراب دکھائی دے رہے ہیں۔تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کے نام پر صوبائی حکومت نے پانچ سال میں تقریباً 100منصوبوں کا اعلان کیا اور ان میں سے لگ بھگ 55منصوبے شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر گئے ۔مثال کے طور پر پنجاب حکومت کے زیر انتظام چل رہے دانش اسکولوںکی طرز پر 200اسمارٹ اسکول بنانے کا اعلان کیا گیا ،بجٹ میں اس منصوبے کیلئے 2ارب روپے بھی مختص کئے گئے لیکن لکی مروت میں ایک اسمارٹ اسکول بنانے کے بعد اس منصوبے کو لپیٹ دیا گیا ۔پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کیلئے یکساں نصاب تعلیم کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن آج تک اس سمت میں کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا اور پرنالہ جوں کا توں ہے ۔نہایت شد ومد سے اعلان کیا گیا کہ اسکولوں کے باہر موجود ایسے بچے جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیںان کی تعداد کا تخمینہ لگانے کیلئے ایک جامع سروے کروایا جائے گا لیکن اس بھاری پتھر کو چوم کر ایک طرف رکھ دیا گیا ۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 2016ء میں اعلان کیا تھاکہ تعلیمی بورڈز میں پوزیشن لینے والے طلبہ و طالبات کو فی کس دس لاکھ روپے بطور انعام دیا جائے گا لیکن ابھی تک یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ایلیمینٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے نئے اسکولز کھولنے کے بجائے پہلے سے چل رہے ان 300پرائمری اسکولوں کو بھی بند کردیا جہاں طلبہ و طالبات کی تعداد کم تھی ۔پانچ سال بعد یہ تاثر ہے کہ صوبے کے تعلیمی نظام کو رہن رکھ دیا گیا ہے اورشعبہ تعلیم کی باگ ڈورایک این جی او کے پاس ہے یہی وجہ ہے کہ اساتذہ سراپا احتجاج ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کی صورتحال تو اسکولوں سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے ۔تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میںہر ضلع کی سطح پر ایک یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ایک سے زائد بار یہ وعدہ پورا کرنے کی یقین بھی دہانی کرائی لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ۔امیر حیدر ہوتی کی سربراہی میں بننے والی گزشتہ صوبائی حکومت جس نے تعلیمی ایمرجنسی لگانے کے بلند بانگ دعوے نہیں کئے تھے اس نے پانچ سال میں 10نئی یونیورسٹیاں بنائیں لیکن تبدیلی سرکار اپنے پانچ برس میں کوئی ایک نئی یونیورسٹی بھی نہیں بنا سکی۔اب انتخابات سے چند ماہ قبل مردان میں اور دیر کے کالجوں میں یونیورسٹیوں کے کیمپس کھول کر ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 2016-17میں تو نئی یونیورسٹیوں کے قیام کیلئے 900ملین روپے کی رقم مختص بھی کی گئی مگر احتجاجی سیاست اور دھرنوں میں مصروف صوبائی حکومت کو یہ منصوبے شروع کرنے کی فرصت نہیں مل سکی ۔گزشتہ برس جو آخری بجٹ پیش کیا گیا اس میں ہائر ایجوکیشن کیلئے 12ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی لیکن ایک سال کے دوران بمشکل 2ارب روپے ہی خرچ کئے جا سکے اور تبدیلی سرکار کو یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا کہ مختص کیا گیا بجٹ کہاں خرچ کیا جائے۔جب نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق سوال ہو تو تحریک انصاف کے ترجمان یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے تختیاں لگا کر نئے منصوبوں کا افتتاح کرنے کے بجائے پہلے سے کام کر رہے اداروں کا نظام ٹھیک کرنے پر وسائل اور توانائیاں صرف کی ہیں ۔مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں بھی صوبائی حکومت کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔چترال یونیورسٹی کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بجٹ دستاویزات کی زینت تو بنا مگر عملاً یہ خواب شرمندہ ء تعبیر نہ ہو سکا ۔سوات یونیورسٹی ابھی تک کرائے کی ایک چھوٹی سی عمارت میں قائم ہے جہاں طلبہ اور اسٹاف کیلئے بنیادی سہولتیںاور انفراسٹرکچر ہی دستیاب نہیں ۔کرک اور کوہاٹ یونیورسٹیوں میں بھی صورتحال انتہائی مخدوش اور ناگفتہ بہ ہے۔صوبائی حکومت کی عدم توجہی کے باعث خیبرپختونخوا کی جامعات میں مالی اور انتظامی بے قاعدگیوں کا سلسلہ عروج پر ہے ۔ایک سے ڈیڑھ برس تک صوبے کی 10بڑی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز تعینات کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی گئی جس سے نہ صرف تعلیمی معیار پست ہوا بلکہ جامعات کا ماحول بھی پراگندہ ہوا۔مثال کے طور پر جب مشال خان کو ہجوم نے قتل کر ڈالا تو اس وقت مردان یونیورسٹی بھی وائس چانسلر کے بغیر عارضی بندوبست کی بنیاد پر چل رہی تھی۔جب اس حادثے کے بعد وائس چانسلرز کی تعیناتی کا سلسلہ شروع ہوا تو اقربا پروری کی بنیاد پر نااہل امیدواروں کے انتخاب کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں ۔مثال کے طور پر اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں ایک ایسے شخص کو رئیس الجامعہ تعینات کر دیا گیا جس کی دو تھرڈ ڈویژنز ہیں جبکہ ضابطے کے مطابق جس شخص کی ایک بھی تھرڈ ڈویژن ہو اسے وائس چانسلر تو کیا لیکچرر بھی بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح باچاخان یونیورسٹی چارسدہ میں ایک ایسا شخص وائس چانسلر کی نشست پر براجمان ہے جس پر گزشتہ پوسٹنگ کے دوران خواتین کی جانب سے جسمانی طور پر ہراساں کئے جانے کے نہ صرف سنگین الزامات عائد ہیں بلکہ فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔اس بد انتظامی ،نااہلی اور اقربا پروری کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی 129یونیورسٹیوں کی جو رینکنگ جاری کی ہے اس کی ٹاپ 15یونیورسٹیوں میںخیبر پختونخوا کی صرف ایک یونیورسٹی شامل ہے جبکہ گزشتہ کئی برس سے صوبے کی کوئی ایک یونیورسٹی بھی ٹاپ ٹین کی فہرست میں جگہ بنانے میں ناکام رہی ۔
تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے اور تعلیم کے لئےمختص بجٹ میں ریکارڈ اضافے کا کریڈٹ لینے والی تبدیلی سرکار نے جاتے جاتے بھی اس شعبے کو اپنی محبت کے ہاتھوں مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پشاور ریپڈ بس کا منصوبہ انتخابات سے پہلے مکمل کرنے کے چکر میںخیبرپختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے 6ارب روپے ہتھیا لئے۔اس رقم سے حاصل ہونے والا منافع نہ صرف ٹیکسٹ بک بورڈ کے روزمرہ معاملات چلانے میں معاون ثابت ہوا کرتا تھا بلکہ ادارہ اس رقم کو سرمایہ کاری کے طور پر استعمال کرکے اپنے وسائل میں اضافہ بھی کرتا رہتا تھا۔حکومتی سطح پر ہونے والی اس ڈاکہ زنی کا خمیازہ محکمہ تعلیم کو یوں بھگتنا پڑا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ وسائل کی کمی کے باعث کتابیں بروقت شائع نہیں کرسکا اور اب تک بھی بعض کتابیں اسکولوںمیں فراہم کی جا سکی ہیں نہ مارکیٹ میں دستیاب ہیں یہ ہے خیبر پختونخوا میں تعلیم کے انصاف کی ایک جھلک ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین