• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ابھی قدرتی موسم پوری طرح تبدیل نہیں ہوا، تاہم اسلام آباد میں موسم اور سیاسی معاملات میں تبدیلی کے اشارے واضح طور پر ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ کراچی میں صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے، وہاں موسم کی گرمی سے لے کر ہر قسم کے حالات میں جس کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ پنجاب میں حبس اور خوف کی فضا میں حکومت چل رہی ہے، اچھے سے اچھا کام بھی اسی وجہ سے سست روی کا شکار ہے کہ خدا خدا کرکے پہلی بار نیب کا خوف اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ اس سے پہلے اچھی طرز حکمرانی کے نام پر عوام سےسب کچھ چھپایا جارہا تھا اور ایسے نظر آرہا ہے کہ صرف پنجاب ہی میں سب اچھا ہے، اب پتہ چلتا ہے کہ یہاں بھی معاملات اس طرح کے ہیں، جیسے دوسرے صوبوں میں خاص کر گورننس کے۔
یہی صورتحال بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی کراچی ا ور لاہور سمیت سندھ، پنجاب اور دوسرے صوبوں میں ہے جس سے اس حکومت کی تمام اعلیٰ شخصیات کے دعوے اور اعلانات حقائق کی نفی کررہے ہیں، تاہم یہ بات ماننے کی ہے کہ بجلی کہ بدترین لوڈ شیڈنگ کی صورتحال اس وقت تک وہ نہیں جو سابق حکمرانوں کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ فرق اتنا ضرور ہے کہ اس وقت اگر بجلی نہیں ملتی تھی تو اس کی فی یونٹ قیمت بھی وہ نہیں تھی جو ا ب عوام کو سستی بجلی کی فراہمی کے نام پر مل رہی ہے، البتہ بجلی کی سپلائی اور ترسیل میں چوری کا عنصر ختم نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی یہ ختم ہوسکتا ہے۔ اس لئے تو اب سرکلر ڈٹ جو اصل میں فنی نقصانات کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا حجم ایک ہزار روپے سے بڑھنا کسی بھی طرح خوش آئند نہیں ہے۔ سرکلر ڈٹ ایک زمانے میں واپڈا کے تکنیکی نقصانات کا حصہ ہوا کرتا تھا لیکن ماہر اقتصادیات اور سابق وزیر تجارت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس کو تکنیکی نقصانات کے زمرے سے نکال کر نیا ٹائٹل سرکلر ڈٹ کا دے دیا تھا۔ اس سب پس منظر میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو یہ جان لینا ہوگا کہ سرکلر ڈٹ نے بڑھتے ہی جانا ہے۔ اس لئے کہ حکومت کیا آنے والی نگران حکومت اور نئی حکومت بھی اسے سو فیصد ختم نہیں کرسکتی۔ دوسرا یہ کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ تو شاید ختم نہ ہوسکے، البتہ اس میں کمی کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اب موقع ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر کم از کم یک نکاتی حکمت عملی کے تحت ہائیڈل پاور کی پیداوار میں اضافہ کے لئے کوئی فیصلہ کریں جس کے تحت کالا باغ ڈیم جیسے تاریخی طور پر قابل عمل منصوبے پر آغاز کا اعلان کردیں۔
اس سلسلہ میں سول سوسائٹی کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں پر دبائو ڈالنے کا یہ بہترین موقع ہے کہ عوام کو صحیح معنوں میں سستی بجلی اور زراعت کے بہترین منصوبے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل پابند کریں اور اس کی بنیاد پر ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے زیادہ خدشہ اس کا ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے چار چھ ہفتوں کے بعد اگر خدانخواستہ سیاسی حالات کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بریک ڈائون یا شٹ ڈائون ہوگیا تو اس کا کیا ہوگا۔ اس حوالے سے ملک بھر کے سرمایہ کار اور بزنس مین طبقہ بظاہر بڑا پریشان ہے لیکن اگر کوئی غیر جمہوری سیٹ اپ آجاتا ہے تو پھر سب سے پہلے آنے والوں کو ویلکم بھی یہی بزنس مین کرتے ہیں، جو ایک سیکنڈ میں ٹریک بدل لیتے ہیں، تاہم 30فیصد سے40فیصد شاید ایسا نہ کریں، مگر وہ سیاسی جماعتوں کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں اس لئےدعا کرنی چاہئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ تو اس حد تک ہو کہ عوام کے لئے ناقابل برداشت بن جائے کیونکہ حکومت کا اس حوالے سے اصل ٹیسٹ ماہ رمضان میں ہوگا۔ اس کے بعد عملاً موسم گرما کے چار ماہ تو بڑے ہی سخت اور صبر آزما ہوتے ہیں۔ اس طرح سیاسی حالات اس حد تک ابتر نہ ہو جائیں اور انتخابی سرگرمیوں کے نام پر لڑائی ،مارکٹائی اور غیر اخلاقی حد تک سیاسی الزام تراشی نہ شروع ہوجائے کہ سیاسی موسم ابر آلود ہوجائے، ویسے تو یقین کیا جاسکتا ہے کہ اب کی بار شاید ایسا نہ ہو بلکہ جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ہی کوئی او راستہ نکال لیا جائے جس کے بعد آنے والے سالوں میں سیاست سے روایتی لوگ بھاگنا شروع کردیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین