• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں تعلیم کا بیڑا غرق، خلاف میرٹ 3 وی سیز مستعفی، ایک معطل، اسپتال میں بے ضابطگیوں پر انکوائری کا حکم

پنجاب میں تعلیم کا بیڑا غرق، خلاف میرٹ 3 وی سیز مستعفی، ایک معطل، دل کے اسپتال میں بے ضابطگیوں پر انکوائری کا حکم، اوورسیز پاکستانیز کمشنر کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، چیف جسٹس

لاہور(نمائندہ جنگ، مانیٹر نگ سیل) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں نطام تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا یہ ہے کارکردگی پنجاب حکومت کی۔ چیف جسٹس نے تین سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کو مستعفی ہونے کا حکم دیدیا جبکہ استعفیٰ دینے سے انکار پر لاہور کالج فار ویمن کی وائس چانسلر کو معطل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے 6؍ ہفتوں میں میرٹ پر مستقل وائس چانسلرز کی تقرر کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ نظام تعلیم کا بیڑا غرق کردیا گیا، یہ ہے پنجاب حکومت کی کارکردگی۔ عدالت عظمیٰ نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بے ظابطگیوں پر نیب سے انکوائری کرانے، اوورسیز پاکستانیز کمشنر پنجاب اور ممبر بورڈ پی آئی سی افضال بھٹی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دل کرتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب کو بلا کر تمام کارروائی دکھائوں کہ یہ کیا ہورہا ہے، انہوں نے کہا کہ سفارشوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں، نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ قاضی اتنا کمزور نہیں، معاملہ نیب کو بھجواتے ہیں سب سامنے آ جائیگا، خواجہ سلمان محکمہ صحت میں جوہو رہا ہے، یہی آپ کیخلاف چارج شیٹ بنے گی، سعد رفیق کو چوکنا کر دیں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ عدالت نے پراسرار بیماری میں مبتلا 2؍ بچوں کے علاج کیلئے مشین منگوانے کا حکم دیا جبکہ ماں بچے کی صحت کے پانچ ہزار ملازمین کو ریگولر نہ کرنے کی رپورٹ طلب کر لی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے میرٹ کے برعکس وائس چانسلرز کی تقرر پر از خود نوٹس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کے وزیر کہاں ہیں، فوری عدالت میں پیش ہوں، جس پر صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن رضا علی گیلانی عدالت میں پیش ہو گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی اہم ترین ہے اس میں اڑھائی سال سے مستقل وائس چانسلر کیوں تعینات نہیں کیا گیا، بتایا جائے کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے،سیکرٹری، وزیر یا وزیر اعلی میں سے کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟ چیف جسٹس پاکستان نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن سے استفسار کیا کہ اڑھائی برس سے مستقل تعیناتی نہ ہونے کا مطلب آپ نا اہل ہیں؟ سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں مستقل تعیناتی کیلئے اگست تک کا وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت تو موجودہ حکومت نہیں ہو گی، کیا اتنا طویل وقت اسی لئے مانگا جا رہا ہے؟ سیکرٹری نے کہا کہ درخواستوں کو پراسس کرنے کیلئے وقت چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا متعصب ڈی ایم جی افسر میں نے نہیں دیکھا، جو سیاسی حکومت کا ہر لحاظ سے دفاع کر رہا ہے اگر 6 ہفتوں میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہوئی تو ذاتی طور تم ذمہ دار ہو گے، لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی میں میرٹ کے برعکس وائس چانسلر کی تعیناتی کےمعاملہ پر چیف جسٹس نے کہا کہ سینئرز کو کیسے نظر انداز کر دیا گیا، عدالت کے علم میں ہے کہ احسن اقبال کا تعیناتی میں کیا کردار ہے لاہور کالج یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ نے کہا کہ احسن اقبال میرے والد کے شاگرد ہیں میں حلفا کہتی ہوں احسن اقبال کا تعیناتی میں کوئی کردار نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نظام تعلیم کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا، یہ ہے پنجاب حکومت کی کارکردگی؟ صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن رضا گیلانی نے کہا کہ عظمیٰ قریشی کی تعیناتی میرے دور میں نہیں ہوئی عظمی قریشی کی تعیناتی سے متعلق انکوائری میرے ہاس آئی تھی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استعفیٰ دینے سے انکار پر لاہورکالج فار وویمن یونیورسٹی کے وائس چانسلر عظمیٰ کو معطل کردیا اور عدالت نے یونیورسٹی کی تین سینئر ترین پروفیسرز میں سے ایک کو قائم مقام وی سی تعینات کرنے کا حکم دیدیا۔ عظمیٰ قریشی نے عدالت کو اللہ کے واسطے دیئے کہ انھیں معطل نہ کیا جائے وہ سفارشی نہیں ہیں نہ وزیر داخلہ احسن اقبال کا انکی تقرری میں کوئی کردار ہے وہ میرٹ پر مقرر ہوئیں اگر انھیں معطل کیا گیا تو انکی ساکھ پر دھبہ لگ جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نئی سرچ کمیٹی میں دوبارہ سے اپلائی کریں، اگر میرٹ پر پورا اتریں تو آپ تعنیات ہو جائینگی۔ چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ سینئرز کو کیسے نظر انداز کر دیا گیا۔ عدالت نے فاطمہ جناح یونیورسٹی،راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی،فیصل آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کو فوری مستعفی ہونے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے رزاق دائود، عمر سیف، ظفر اقبال قریشی پر مشتمل سرچ کمیٹی نے چھ ہفتوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی یقینی بنانے کے احکامات جاری کر دیئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ سلمان سے کہا کہ انھیں ہر سماعت پر عدالت میں آنے کی ضرورت نہیں جب ضرورت ہوگی تو انھیں بلا لیا جائے گا وہ اپنے بھائی وفاقی ریلوے خواجہ سعد رفیق کو چوکنا کر دیں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عہدہ سے ہٹائے گئے پنجاب یونیورسٹی کے سبکدوش وائس چانسلر زکریا ذاکرداد رسی کیلئےسپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں پیش ہو گئے۔ انہوں نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے معافی مانگتےہوئےاستدعاکی کہ ریٹائرمنٹ میں 2 برس رہ گئے، شفقت کی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ یونیورسٹی کے محافظ کی حیثیت سے جامعہ کے مفادات کا تحفظ کیوں نہیں کیا؟ ۔ذاکر زکریا نے کہا کہ میں ایک استاد ہوں، 28 برس تک یونیورسٹی میں طلباء کو تعلیم دی ، ایک لرزش ہوئی، معافی دی جائے۔انہوں نے کہاکہ سرچ کمیٹی نے انہیں میرٹ پر تعینات کیا، مگر حکومت نے مستقل کیوں نہیں کیا۔؟ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ انہوں نے اسی لئے مستقل نہیں کیا تاکہ من پسند فیصلے لئے جاسکیں، یونیورسٹی میں تعیناتیوں اور مالی معاملات سے متعلق جو کچھ ہوا، عدالت کے علم میں ہے، عدالت نے پہلے ہی درگزر سے کام لیا ہے،اگرآپ میرٹ پرآتے ہیں تو دوبارہ اپلائی کر دیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بے ظابطگیوں پر نیب سے انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کو معاملے کی چھان بین کیلئے طلب کر لیا۔ عدالت نے اوورسیز پاکستانی کمشنر پنجاب اور ممبر بورڈ پی آئی سی افضال بھٹی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دل کرتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب کو بلا کر تمام کارروائی دکھائوں کہ یہ کیا ہورہا ہے معاملہ نیب کو بھجواتے ہیں سب سامنے آ جائے گا جو بھی ذمہ دار ہو گا چھوٹے گا نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پی آئی سی میں بے ضابطگیوں کے بارے میں ازخود نوٹس کیس کی۔ سماعت کی عدالت کے حکم پر وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق ۔خواجہ احسان اور پی آئی سی کے سربراہ ڈاکٹر ندیم حیات ملک عدالت میں پیش ہوئے پی آئی سی کی خاتون ملازمہ نے پی آئی سی میں ادویات کی خریداری میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی خاتون نے عدالت عظمی کو بتایا کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گھپلوں کی نشاندہی کی تو اسکی پاداش میں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ متاثرہ خاتون روسٹرم پر کھڑے اپنی روداد سناتے آبدیدہ ہو گئی،جس پر چیف جسٹس نے خواجہ حسان کو باور کروایا کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ سب کیسے ہو گیا؟چیف جسٹس نے وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان کو مخاطب کیا اور کہا کہ جو کچھ محکمہ صحت میں ہو رہا ہے اس کو نوٹ کرتے جائیں یہی آپکے خلاف چارج شیٹ بنے گی۔ چیف جسٹس پاکستان نے اوور سیز کمشنر پنجاب کو پی آئی سی کا ممبر بورڈ بنانے پر حیرانگی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ وہری شہریت کے حامل شخص کو کیسے پی آئی سی میں لگا دیا گیا۔ چیف جسٹس کے استفسار پر اوورسیز کمشنر پنجاب افضال بھٹی نے بتایا کہ انکی تنخوا ہ ساڑھے پانچ لاکھ روپے ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صوبے کا چیف سیکرٹری ایک لاکھ 80 ہزار روپے لے رہا ہے آپکو کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سفارشوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے واضع کیا کہ یہ قاضی اتنا کمزور نہیں معاملہ نیب کو بھجواتے ہیں سب سامنے آ جائیگا۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل کی مداخلت پر انکی سرزنش کی چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ جو بھی ذمہ دار ہوگا چھوٹے گا نہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام متعلقہ حکام کو 28 اپریل کو طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ نے پیدائشی طور پر پراسرار بیماری میں مبتلا دو بچوں کے علاج کیلئے 10 روز میں بیرون ملک سے مشین منگوانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے قرار دیا کہ اگر مرض کا علاج نہیں ہے تو کیا مریض کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے؟ کیا انتظامیہ کا کام نہیں کہ علاج کیلئے سہولیات فراہم کی جائیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی کی دو رکنی بنچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دو بچوں کے والد نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مجھے اور میرے بچوں کو مختلف اسپتالوں میں دھکے ملے، علاج کیلئے مشین ہی موجود نہیں ہے جس سے علاج ممکن ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے پاکستان کے کسی اسپتال میں یہ مشین کیوں نہیں آئی۔ 80 لاکھ کی مشین ہے، اگر پنجاب حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے تو آج شام تک مجھ سے لے لیں۔ہم مخیر حضرات کو کہتے ہیں پیسے آ جائیں گےمرض کا علاج نہیں تو مریض کو مرنے کیلئے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ خواجہ سلمان رفیق نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ حکومتی پیسے سے مشین منگوائی جائے گی اور اسے چلانے کیلئے درکار تمام سہولیات بھی فراہم کر دی جائیں گی۔ عدالت نے فوری طور پر مشین پاکستان منگوانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ہفتہ وار تعطیل کے باوجود سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ازخود نوٹسز پر سماعت کی اور سماعت مکمل ہونے پر جب وہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے روانہ ہوئے تو باہر موجود سائلین نے انکے حق میں نعرے لگائے اور انکی گاڑی روک کر استدعا کی کہ انکی داد رسی کی جائے۔چیف جسٹس پاکستان نے سائلین کو دیکھ کر گاڑی دوبارہ سپریم کورٹ رجسٹری لیجانے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ سائلین کو درخواستوں سمیت انکے چیمبر میں آنے دیا جائے۔ چیف جسٹس نے فنانس سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں ادا کی جائیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تنخواہوں کی عدم آدائیگی پر تشویش کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو کیوں مستقل نہیں کیا جارہا، ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں دو دن تک احتجاج کرتی رہیں،سیکرٹری فنانس کو کہیں کہ اپنے جانے سے پہلے اس مسلے کو حل کرکے جائے۔ عدالت نے اسسٹنٹ لینڈ ریکارڈ ارم شہزادی کا دوسرے ضلع میں تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈی جی لینڈ ریکارڈ پنجاب کو پیش ہونے کا حکم دیدیا۔چیف جسٹس نے ماں بچے کی صحت کے پانچ ہزار ملازمین کو ریگولر نہ کرنے کی رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں یونیورسٹیوں کے میرٹ سے ہٹ کر وائس چاانسلروں کی تقرریوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان کا اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ کے آفیسر سبطین فضل عظیم سے مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے استفساار کیا کہ اورنج لائن ٹرین کب تک مکمل ہوجائے گا باہر بہت گند پڑاا ہے، پراجیکٹ آفیسر سبطین فضل عظیم نے بتایا کہ منصوبہ کی تکمیل کے لئے 10 مئی کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہےامید ہے کہ 25 مئی تک منصوبہ مکمل کرلیا جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 31؍ مئی سےقبل منصوبہ مکمل کرنا حکومت کے اپنے مفاد میں ہےسبطین فضل عظیم وائس چانسلر تعیناتی کی سرچ کمیٹی کے سابق ممبر تھے۔ سپریم کورٹ نے سبطین فضل عظیم کو وائس چانسلرز تعیناتی کیس میں طلب کیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے ہیں کہ وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر ماہانہ 11 کروڑ 52 لاکھ 50 ہزار کا خرچ آتا تھا یہ رقم صحت اور تعلیم کیلئے خرچ کی جاسکتی تھی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ہفتہ وار تعطیل کے باوجود اتوار کے روز مفاد عامہ کے معاملات پر ازخود نوٹسز کی سماعت کی۔ کارروائی کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ چار ہزار چھ سو دس اہلکاروں پر ماہانہ 11 کروڑ 52 لاکھ اور 50 ہزار روپے کا خرچ آتا تھا اور ایک سال میں یہ اخراجات ایک ارب 38 کروڑ سے زائد کے بنتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے بتایا ان اخراجات میں ابھی پٹرول اور گاڑیوں کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔دریں اثنا سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں صحافیوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی درخواست پر سماعت ہوئی ، درخواست گزار الیکٹرانک میڈیا رپورٹر زایسوسی ایشن کے سیکرٹری آصف بٹ نےعدالت کو بتایا کہ بعض میڈیا مالکان نے عدالت کو گمراہ کیا اور جعلی بیان حلفی پیش کیے، میڈیا مالکان نے ابھی تک صحافیوں کو مکمل تنخواہوں کا وعدہ پورا نہیں کیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے صحافیوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا پہلے ہی نوٹس لے رکھا ہے، آصف بٹ نے کہا کہ بزنس پلس، نیوز وَن، اسٹار ایشیا، سیون نیوز، ڈیلی ٹائمز ، روزنامہ خبریں سمیت دیگر میڈیا مالکان نے تنخواہوں کی مکمل ادائیگی نہیں کی ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں سارے صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی ہو گی،جن میڈیا مالکان نے عدالتی حکم پر تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی ان کےخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی،عدالت نے الیکٹرونک میڈیا رپورٹر زایسوسی ایشن کی درخواست کو میڈیا کمیشن کےساتھ یکجا کرنے کا حکم دے دیا ۔

تازہ ترین