• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیواسلام آباد ائیر پورٹ سمیت کئی منصوبے گزشتہ 5سالوں میں مکمل ہوئے

اسلام آباد(طارق بٹ )نیواسلام آباد ائیر پورٹ سمیت کئی منصوبے گزشتہ پانچ سالوں میں مکمل ہوئے ہیں جن میں لیاری ایکسپریس وے،نیلم جہلم پروجیکٹ جس کی منظوری 1989 میں ہوئی تھی اور دیگر شامل ہیں۔نندی پور بھرپورصلاحیت سے بجلی بنارہا ہے۔تفصیلات کے مطابق نیو اسلام آباد انٹر نیشنل ائیر پورٹ کی تکمیل جوکہ اگلے ماہ اربوں ڈالرز کے پروجیکٹس میں تیزی کے نتیجے میں آپریشنل ہونے جارہا ہے ،مسلسل حکومتوں کی نااہلی اور غفلت کے باعث اسے بہت تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔نیو ائیر پورٹ کی تعمیر کی طویل غمزدہ کہانی سے مسلسل حکومتوں کی عدم قابلیت اور نااہلی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے اور یہ لواری ٹنل ،نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ نندی پور پاور پروجیکٹ ،لیاری ایکسپریس وے اور کچھی کینال سے مختلف نہیں ہے جو کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مکمل ہوئے ہیں ۔اس کام میں سستی سابق حکومتوں میں ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اربوں روپے ضائع ہوئے اور عوامی خزانے سے ان پر اصل لاگت سے کہیں زیادہ خر چ ہوگئے ۔یہ منصوبے تیزی سے مکمل نہ ہوئے تو قوم مزید تنائو میں مبتلا ہوجائے گی ۔برسوں پہلے پرویز مشرف نے 8 اپریل 2007 کو نیو ائیر پورٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔ان کے اس وقت کے باقی رہ جانے والے دور حکومت میں سست رفتار ی سے پاکستان کے پہلے گرین فیلڈ ائیر پورٹ کا کام جاری رہا ۔اگلی پاکستان پیپلز پارٹی حکومت نے کام کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی توجہ نہیں دی اور پروجیکٹ مبینہ کرپشن میں پھنس گیا ،موجودہ انتظامیہ جون 2013 کو وجود میں آئی ،اس کے بعد وزیر اعظم نوازشریف نے اسے جلد نمنٹانے کیلئے توجہ دی اور اس کیلئے ایک سے زائد بار دورے کیے او ر اس کی تکمیل بلا تاخیر کرنے کیلئے زور دیا ۔مسافروں کے جانے اور ائیرپورٹ آنے کی سہولت کیلئے انہوں نے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو ٹریک کو توسیع دی ۔میٹرو کوریڈو ر کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے ۔جب مشرف نے اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا تو بتایا کہ اس کی لاگت 30 ارب روپے ہوگی تاہم اب یہ 100 ارب کی حد بھی پار چکی ہے ۔اصل میں ریلوے ٹنل ،وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے افتتاح کیے جانے والی ستمبر 1975میں لواری ٹنل کی تعمیر کو بھی دیکھ لیا جائے ۔ایک سال سے بھی کم عرصے میں 1976 کو اس کا کام فنڈ ز کی عدم دستیابی پر روک دیاگیا۔جس کے بعد اسے ستمبر 2005 میں شروع کیا گیا ۔ابتدا میں توقع کی گئی کہ اسے 2009 میں مکمل کرکے اسے گاڑیوں کیلئے سڑک میں بدل دیا جائے گا ۔8.75کلومیٹر طویل لواری ٹنل جوکہ ہندو کش پہاڑی سلسلے ،دیر اور چترال کے درمیان سے گزرتی ہے ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ٹریفک کو این 45 نیشنل ہائی وے سے بائی پاس لواری پاس سے گزرنے دیا جائے اور اس سے چترال اور پشاور کے درمیان 14 گھنٹے کی مسافت میں کمی آتی ہے اور صرف 7 گھنٹوں کا سفر رہ جاتا ہے ۔اس سے تمام موسموں کی ٹرانسپورٹیشن کو سہولت ہے ۔ٹائم لائن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دہائیوں میں آنے والی مسلسل حکومتوں کے دوران اس میں تاخیر ہوتی رہی ہےاور بالآخر موجودہ انتظامیہ نے اسے مکمل کردیا ۔نیلم جہلم پروجیکٹ کی منظوری 1989 میں ہوئی تھی ،یہ 2002 میں شروع ہوکر اور 2008 میں اسے مکمل ہونا تھا لیکن لاگت بڑھ جانے جیسی وجہ کے باعث اس میں تاخیر ہوتی رہی ۔مزید یہ کہ 2005 کا زلزلہ جس نے علاقائی طور پر رع ڈیزائن کی ضرورت پید اکردی تھی ۔7 جولائی 2007 کو چینی جماعت سی جی جی سی -سی ایم ای سی (گیزوبا گروپ اینڈ چائنہ نیشنل مشینری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کارپوریشن )نے ڈیم اور پاور اسٹیشن کو تعمیر کرنے کیلئے معاہدے کی پیشکش کی ۔جنوری 2008 کے آخر میں اس کی شرائط طے کی گئیں اور اس کے نفاذ کیلئے لیٹر جاری کیاگیا ۔پروجیکٹ پر تیزی سے کام ہوا اور اب یہ بجلی پیدا کرنے اور اسے نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کیلئے تیار ہے ،تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت کئی ارب روپے زیادہ ہوگئی ۔نندی پور پروجیکٹ کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے ،یہ بھی غفلت میں پھنسا رہا سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے گئے کمیشن کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ سابق حکومت کی طرف سے مختلف اقدامات پر قومی خزانے کو120 ارب روپے کا نقصان ہوا ۔بالآخر موجودہ حکومت نے اس پر کام کیا اور اب اس سے پوری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا ہورہی ہے۔کچھی پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ 2002 میں ہوا او ر اس پر بھی کام کیا،363 کلومیٹر طویل نہر جس میں سے 281 کلومیٹر پنجاب جبکہ 80 کلومیٹر بلوچستان میں ہے ،یہ دریائے سندھ پر تونسہ بیراج سے شروع ہوتی ہے ۔اس سے 72 ہزار ایکڑ کی زرعی اراضی سیراب ہوتی ہے ،پانی کے انفرا سٹرکچر اور سیراب ہونے والی زراعت بلوچستان میں سنگ میل عبور کرنا ہے ۔جب مئی 2002 میں لیاری ایکسپریس وے پر کام شروع کیاگیا اس وقت کہا گیا کہ یہ نومبر 2004تک 30 ماہ میں مکمل ہوجائے گا ۔لیکن اس میں سستی سے کام لیاگیا اور یہ چند ماہ قبل ہی مکمل ہوا ہے۔
تازہ ترین