• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات صورتحال کیا ہے؟

پاکستان اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات صورتحال کیا ہے؟

پاکستان اور ہندوستان کے عوام غربت سے اٹے ہوئے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ نہ حل ہونے کی بنا پر غیر پیداواری اخراجات دونوں ممالک کے بہت بڑھ گئےہیں دوسری جانب جنوبی ایشین ایسوسی ایشن برائے علاقائی تعاون (سارک) کے بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ خطے کے علاقے جن میں افغانستان،بنگلہ دیش، بھوٹان، ہندوستان، مالدیپ ، نیپال ، پاکستان اور سری لنکا شامل ہیں۔ 

معاشی تعلقات کو بڑھائیں تاکہ ان ملکوں کے لوگ ترقی سے بہرہ ور ہوں 1985 میں سارک بنائی گئی لیکن ہندوستان کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ نومبر میں اس سال پاکستان میں سارک کانفرنس کا انعقاد ہونا تھا لیکن سرحدوں پر ہندوستان کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے سارک کانفرنس کا انعقاد مشکل ہو گیا ہے۔ 

وزیر اعظم مودی جب چاہتا ہے پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے گھر آجاتا ہے لیکن کانفرنس میں حاضری سیاست کی نذر ہو جاتی ہے۔ سیاسی تنائو اور بے یقینی کے معاشی و تجارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آسیان تنظیم کی طرح سارک بھی کام کرے اور علاقائی مسئلے حل کئے جائیں تو جنوبی ایشیا کے غریبوں کو خوش گوار حالات دیکھنے کو ملیں گے۔


ہندوستان کو ایم ایف این(MFN)درجہ دیا گیا

پاکستان ہندوستان کے کشیدہ حالات میں عالمی برادری نے کچھ نہیں کیا لیکن عالمی مالیاتی اداروں نے ہندوستان کو پاکستان کے لئے Most Favoured Nation کا درجہ دیا۔ حالات نارمل نہ ہوں تو پاکستان اس درجے کو کیسے قبول کر سکتا ہے سالہا سال سے پاکستان سے ہندوستان کو نہ ہونے کے برابر تجارت کی جا رہی ہے۔ اس لئے متوازی تجارت ہو رہی ہے جس کا دونوں ملکوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اندزاہ کیجیے کہ 2003میں صرف 84ملین ڈالر کا پاکستان نے ہندوستان کو مال برآمد کیا یعنی آٹھ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کی برآمدات ہوئیں اس کے مقابلے میں 2013میں حالات کچھ بہتر ہوئے تو پاکستان سے 403ملین ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ 2015 میں پھر کم ہو کر 312 ملین ڈالر ہو گئیں۔ 2014میں حالات بہتر ہوئے تو سب سے زیادہ 2.18 بلین ڈالر ہو گئی۔ 2015میں پاکستان کا ہندوستان سے تجارت میں خسارہ پانچ گنا زیادہ تھا۔ کیونکہ ہندوستان نے ایک ارب دو سو ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کی ۔

متوازی تجارت حجم دگنا

متوازی تجارت کا مطلب یہ ہے کہ اسمگلنگ کے ذریعے جسے غیر رسمی تجارت بھی کہتے ہیں 4.71 ارب ڈالر ہے حجم کے لحاظ سے دو تین گنا رسمی تجارت سے زیادہ ہے۔ اس بات کا انکشاف خود ہندوستان کی انڈین کونسل آف ریسرچ ان انٹرنیشنل ریلیشنز نے کیا لیکن اسے بہتر بنانے کے لئے کوئی سفارشات نہیں پیش کیں۔ ایسی صورت حال کو افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ غیر رسمی تجارت میں پاکستان سے ہندوستان کو ٹیکسٹائل، مشینری پارٹس، خشک میوہ جات اور جیولری ہندوستان جاتی ہے۔ ٹیکسٹائل اور مشینری ہندوستان سے پاکستان لائی جاتی ہے۔ پاکستان نے 1209 آئٹمز کی ایک منفی فہرست بنائی ہے یہ آئٹمز ہندوستان سے پاکستان لانا غیر قانونی قرار دیئے گئے ہیں لیکن اسمگلنگ کے ذریعے پاکستان آ رہے ہیں۔ غیر قانونی تجارت سے دونوں ملکوں کو نقصان ہو رہا ہے ۔ لیکن کب عقل کے ناخن لئے جائیں گے یہ معلوم نہیں۔

رسمی تجارت کی نوعیت کیا ہے؟

2015 میں ہندوستان نے 263ملین ڈالر کی برآمدات پاکستان کو کی ہیں اس کا 90فیصد سبزیوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ہندوستان 340 ملین ڈالر کے کیمیکل پروڈکٹس، 837 ملین ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات پاکستان کو برآمد کرتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان 77ملین ڈالر کی سبزیاں، 62ملین ڈالر کی معدنیات، 61ملین کی ٹیکسٹائل پروڈکٹس، 20 ملین ڈالر کی میٹل، اور 14 ملین ڈالر کے میڈیکل آلات رسمی طور پر آمد کرتا ہے یہ اعداد و شمار 2015کے ہیں۔

منی کنٹرول بیورو اور امید کی کرن

دو سال قبل ہندوستان اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات میں کچھ بہتری نظر آئی اور امید کی جارہی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت ’’ٹیک آف‘‘ کرے گی دونوں ممالک کے وزرائے اعظم پیرس میں آب و ہوا کی سمٹ میں ملے بھی تھے۔ بنکال میں دونوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائرز کی ملاقات بھی ہوئی اور سشما سوراج ایشیا سمٹ کے سلسلے میں پاکستان بھی آئیں لیکن لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کی گولہ باری سے نفرت کے سائے پھر سےمنڈلانے لگے۔ منی کنٹرول بیورو بھی یہ جائزہ لیتا ہے کہ ہندوستان کو کتنا فائدہ ہے یہ بھی ایک رکاوٹ ہے۔

2016 میں تجارت کی نوعیت

ہندوستان نے پاکستان سے 441 ملین ڈالر کی امپورٹ کی اس کے برعکس ہندوستان نے پاکستان کو 1271 ملین ڈالر ایکسپورٹ کی یہ ایک بلین ڈالرسے زیادہ تھی اور ہندوستان کا توازن ادائیگی فاضل تھا اس کے باوجود تجارت کو آگے نہ بڑھایا یا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ہندوستان واگہ سے افغانستان تک مال بھیجنے کی اجازت چاہتا ہے۔ اگر یہ اجازت دی جائے تو پاکستان کے پاس ایک ہتھیار آجاتا ہے کہ اگر ہندوستان کوئی غیر قانونی حرکت کرتاہے یا ایل او سی پر گڑ بڑ کرتا ہے تو پاکستان یہ سپلائی روک بھی سکتا ہے اس لئے امن کے لئے یہ راستہ کھولنا ڈیٹرنٹ بھی ثابت ہو سکتا ہے لیکن کشمیر میں جو حالات ہندوستان نے پیدا کر دیئے ہیں اس کے پیش نظر پاکستان کے لئے یہ راستہ کھولنا سیاسی طور پر دشوار ہو گیا ہے۔

دبئی میں غیر رسمی تجارت کی تخمینہ کاری

ہندوستان اور دبئی نے پاکستان ہندوستان کی تجارت کے تناظر میں یہ تخمینہ کاری کی کہ کتنی غیررسمی تجارت دبئی کے ذریعے سے ہوئی ہے جوایک اندازے کے مطابق 4.71 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ہندوستان 3.99ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے اور پاکستان سے ہندوستان امپورٹ 0.72 ارب ڈالر کی کرتا ہے اس کی وجہ کسٹم کے محکمے کی ہراسگی (دونوں طرف سے) اور سیاسی تنائو ہے۔

تازہ ترین