• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ذہین، صلاحیتوں سے مالا مال اور محنتی لوگوں کا ملک ہے اور انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں دنیا سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ نوبل انعامات اور دوسرے بین الاقوامی ایوارڈز اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ کامیابیاں ضروری سہولتوں سے محروم اور کمزور تعلیمی نظام کے باوجود حاصل کی گئیں۔ ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ اگر ہمارے ہاں تعلیم عالمی معیارکے مطابق سستی اور عام ہوتی اور اس شعبے میں ہر کام میرٹ پر ہوتا تو ہمارے طالب علم اور اسکالر اپنے کارہائے نمایاں سے ملک کو تعمیر و ترقی کی بلندیوں پر پہنچاسکتے تھے مگر بد قسمتی سے جس طرح دوسرے شعبوں میں ہم وقت کے تقاضے پورے نہیں کرسکے اسی طرح تعلیم کے میدان میں کما حقہ ترقی نہیں کرسکے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی اداروں میں میرٹ پر تقرریوں کا فقدان ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مفاد عامہ کے مقدمات کی سماعت کے دوران چاروں صوبوں میں بہت سے شعبوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں، گھپلوں اور خامیوں کا نوٹس لیا ہے، ان میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ لاہور میں میرٹ کے برخلاف تقرریوں کے حوالے سے ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران انہوں نے چار سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو مستعفی ہونے کا حکم دیتے ہوئے سرچ کمیٹی کو 6ماہ میں میرٹ پر ان کی جگہ مستقل تقرریوں کی ہدایت کی ہے۔ تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، ان کے حکم کی تعمیل میں مستعفی ہوگئے جبکہ ایک کے انکار پر اس کو معطل کردیا گیا۔ عبوری عرصے میں ان یونیورسٹیوں کے سینئر ترین پروفیسروں کو قائم مقام وائس چانسلر تعینات کیا جائے گا۔جناب چیف جسٹس نے میرٹ کے برخلاف تقرریوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پنجاب میں تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ درحقیقت پنجاب ہی نہیں تقریباً تمام صوبوں میں تعلیم کی یہی صورتحال ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں زیادہ تر اسکول کالج اور یونیورسٹیاںسرکاری تھیںاچھے نجی اور مشنری ادارے بھی موجود تھے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرریوں اور طلبہ کے داخلوں سمیت تمام امور میں میرٹ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ تعلیم تجارت بننے لگی آج ملک کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاںگھوسٹ سرکاری سکول، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ طالب علم نہ ہوں۔ علاقے کے بااثر لوگ سکولوں میں زیادہ تر اپنی پسند کے نالائق لوگوں کو رکھوالیتے ہیں بعض جگہوں پر اسکول محض کاغذات میں ظاہر کئے جاتے ہیںحقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ان گھوسٹ اسکولوں میں کاغذی ٹیچر بھی ہوتے ہیں جن کی تنخواہوں کی رقم کرپٹ لوگوں کی جیبوں میں جاتی ہے۔ ایسے کئی اسکول چھاپوں کے نتیجے میں بند بھی ہوئے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی، میرٹ پر تقرریاں کم ہی ہوتی ہیں۔ نجی شعبے میں بھاری فیسیں وصول کرنے والے اسکولوں اور کالجوں کی جو بھر مار نظر آتی ہے ان میں اکثر معمولی معاوضوں پر میرٹ پر پورا نہ اترنے والے ٹیچر رکھ لئے جاتے ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں اتنا تحقیقی کام نہیں ہو رہا جو کسی یونیورسٹی کا لازمی خاصہ ہے۔ میرٹ کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہمارے اکثر سکالر باہر جانے پر مجبور ہیں یہ صورتحال یقیناً ملک میں ’’تعلیم کا بیڑہ غرق‘‘کرنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا از سر نو حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔ معیار تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تدریسی اور انتظامی شعبوں میں سیاسی تقرریاں بند کی جائیں اور خالصتاً میرٹ پر امیدواروں کا انتخاب کیا جائے۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے لئے پی ایچ ڈی ہونا لازمی قرار دیا جائے، سرکاری تعلیمی اداروں میں ’’معائنے‘‘ کا پرانا نظام رائج کیا جائے اور نجی شعبے کے اداروں کے لئےملازمتوں کا اعلیٰ معیار مقرر کیا جائے جس پر پورا نہ اترنے والے اداروں کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے۔ تعلیم کے شعبے کو موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی اصلاحات پر فی الفور کام شروع کر دیا جائے۔

تازہ ترین