• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین نے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں عدم توازن کو جس شدت سے محسوس کیا ہے اس بارے میں پاکستان میں چین کے سفیر یائوجنگ کا یہ کہنا ہمارےلئے حوصلہ افزااور پاکستانی مصنوعات پر اعتماد کا اظہار ہے کہ چین پاکستانی درآمدات میں اضافہ چاہتا ہے۔ ایسا ہونے سے دونوں ملکوں کے تجارتی حجم میں بہتری آئے گی اور پاکستان کی برآمدی صنعت پھلے پھولے گی۔چین بڑا ایکسپورٹر ہی نہیں امپورٹر بھی ہے۔ چینی سفیر کا بیان اس لحاظ سے بھی تقویت کا باعث ہے کہ دونوں ملکوں میں کم سے کم فاصلے کی بنا پر موجودہ وقت میں بالعموم اور آنے والے وقتوں میں اقتصادی راہداری کی بدولت دو طرفہ تجارت مزید سودمند ہو گی۔ اس سال نومبر میں منعقد ہونے والی شنگھائی درآمدی نمائش میں شمولیت کے لئے پاکستانی تاجروں کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں فری اسٹالز لگانے کی پیشکش بھی پاکستانی بزنس کمیونٹی کے لئے حوصلہ مند ہے۔ نہ صرف چین، دنیا کے بیشتر ممالک پاکستانی پیداوار و مصنوعات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ بعض نامساعد حالات یا غلط فیصلوں کی وجہ سے برآمدی صنعت مسلسل زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور آج انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔ پاکستان جن ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارتی شراکت دار چلا آ رہا ہے ان میں سے 12سرفہرست ملکوں میں بھی چین سب سے اوپر ہے لیکن 2016-17میں جبکہ پاک چین تجارت کا حجم ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔اس وقت بھی31فیصد درآمدات کے مقابلے میں ہماری برآمدات کی شرح محض 11فیصد تھی تین اور ایک کا یہ تناسب اچھا نہیں ہے،اس میں بہتری کی بہت گنجائش ہے،جس کیلئے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ برآمدی پیداوار میں اضافہ ہو،اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پرکشش ترغیبات دے کر ملک میں صنعتی عمل کی حوصلہ افزائی کی جائے۔پاکستان کی اقتصادی کمزوریاں اسی صورت میں دور ہو سکتی ہیں کہ برآمدات میں اضافہ کر کے ادائیگیوں کا توازن بہتر بنایا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین