• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکرالحمدللہ !پاکستان کا ساتواں جاری سیاسی عشرہ (2008-18) جمہوریت کے کتنے ہی امتیازات کے ساتھ اختتام پذیر ہونے جارہا ہے ۔پیپلز پارٹی نے اپنی مجموعی بدترین کارکردگی کے باوجود دو وزراء اعظم کے ساتھ اس کے پہلے نصف میں پہلی بار اپنے اقتدار کی باری آئینی مدت کے مطابق مکمل کی ۔یہ پیپلز پارٹی کی اپنی 45سالہ تاریخ میں چوتھی حکومت تھی ۔اس کی قیادت مالدار تو پہلے ہی تھی لیکن اس زرداری، گیلانی،مشرف دور میں یہ فقط زردار ہونے پر ہی مرکوز رہی اور کرپشن کے نئے ریکارڈ اور انداز قائم کرتے ہوئے مزید ہو گئی ۔تاہم عوام کے دکھوں میں اضافہ ہوا جس کا مداوا صرف بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام سے ہوا اور پی پی بطور عوامی جماعت زوال میں آ گئی ۔ اب یہ سندھ کی علاقائی پارٹی بن گئی ہے جسے ایک عدد نوخیز قیادت ملی ہے۔ یوں اس کی سیاست بھٹو سے زرداری خاندان کو منتقل ہوگئی ۔
حسب روایت حکومت کی دوسری باری ن لیگ کو ملی، یہ بھی اپنے تیسرے اقتدار کی تیسری مدت دو وزراء اعظم کے ساتھ مکمل کرنے کو ہے ۔ہر دو جماعتوں نے عمران کی ظہور پذیر پارلیمانی قوت کے مقابل اپنی اپنی باری فرینڈلی اپوزیشن کے ساتھ سکون سے مکمل کی ۔ن لیگ نے بس پی پی کی کرپشن کا واویلا اس کی ختم ہوتی مدت کے آخری 6ماہ خصوصاً اپنی جارح انتخابی مہم میں مچایا اور قوم کو یقین دلایا کہ وہ پی پی قیادت کا احتساب اقتدار میں آکر کریں گے اور لوٹا مال واپس لیکر عوام کی فلاح پر لگائیں گے ۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ غیر اعلانیہ رضامندی کے مطابق زرداری صاحب، میاں صاحب سے دو ہاتھ آگے فرینڈلی ثابت ہوئے ، یوں اسٹیٹس کو کی دونوں بڑی جماعتیں عملاً ایک جان دو قالب بن گئی تھیں ۔دونوں نے عدلیہ سے اپنے وزراء اعظم گنوا لئے لیکن ماضی کی سنگین خطائوں اور غیر جمہوری حربوں کا کوئی مداوا کرنے کے بجائے اسی بیمار سیاست کو بغیر کسی اصلاح کے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ملک کو کنگال کر دیا ۔اوپر سے بدترین انتظامی امور عوام الناس کے لئے سوہان راہ بن گئے ۔ پہلی بار اقتدارکی ہرد وباریوں کے مکمل ہونے کے دوران پاکستانی جمہوریت کو ارتقائی عمل میں ڈھالنے اور اس کی رفتار میں اضافے کا اہتمام بھی ہوتا رہا۔ ہر دونوں (پی پی اور ن لیگ کے) کے احتساب کانعرہ عمران خان بلند کرتے رہے اور میاں صاحب اور زرداری کے لئے وبال جان بنے رہے اور ہیں۔ وائے بدنصیبی خود عمران کی تند و تیز تنقید اور گورننس پر بے رحمانہ چیکنگ دونوں بدترین حکومتوں میں اصل اپوزیشن تو ثابت ہوئی ، لیکن پارلیمانی جماعت تحریک انصاف کو بننا نہ آیا۔ اس کی اپوزیشن کا اندازپارلیمان سے باہر بلیم گیم کوجاری رکھنے میں گزرا۔ الیکشن 13ء تک تحریک انصاف خودکو منظم جماعت ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہوئی، جس کے پاس تبدیلی برپا کرنے کے تقاضوں کے مطابق مطلوب امیدواروں کےانتخاب کی ناکامی انتخاب سے پہلے ہوئی۔ اقتدارکی دوسری باری کے دوران بھی تحریک کی تمام تر سیاست کا مرکز و محور عمران خان کا وہ سرگرم تعاقب رہا جواس نے حکمرانوں کی بدعنوانیوں کے حوالے سے مسلسل کیا، لیکن خودگڈ گورننس کا کوئی ہمہ گیر پروگرام ترتیب دیا نہ پی پی اور ن لیگ کی بدتر گورننس کافائدہ اٹھا کر اپنے صوبے کی حد تک قانون سازی کا کوئی کارنامہ سرانجام دیا۔ اس کی کامیابی پولیس، صحت، تعلیم اور ماحولیات کےشعبے میں چند بہتر اور بنیادی حکومتی اقدامات تک محدود رہی جو توقعات کے مقابلے میں کمترتھی۔ تاہم تحریک ِ انصاف کادو طاقتور سیاسی خاندانوں کے مقابل، ایم کیو اایم کو پیچھے کرتے ہوئے تیسری بڑی پارلیمانی قوت بننا ایک بڑی سیاسی تبدیلی تھی۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ اس کامرکز کوئی علاقہ ہے نہ کوئی خاندان،بلکہ تحریک انصاف کی قومی سوچ اور رنگ واضح ہے۔
دو بڑی روایتی سیاسی جماعتوںکی توقع کے یکسر برعکس مایوس ترین کارکردگی اور تحریک انصاف کے بھی اپوزیشن کی کمی پوری کرتے ہوئےکوئی بہتر حکومت کا نمونہ قائم کرنے میں ناکامی کے باوجود، اختتام پذیر عشرہ سیاست ملک کے بنتےجمہوری تشخص کے حوالے سے تیزتر ارتقائی عمل کا حامل رہا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پارلیمان کی کارکردگی جتنی مایوس کن رہی اس کے مقابل بالائی سطح کی عدلیہ ایمپاورڈ ہوتی گئی۔ ماضی قریب کی طرح اس پر انتظامیہ کے بدتر سائے ختم ہو گئے اور یہ حقیقی جمہوریت اور آئین کے بڑے تقاضے ’’احتساب‘‘ کی طرف مائل ہو گئی۔ جس میں اس کا اعتماد بعض پیشہ ورانہ کمزوریوں کے باوجود قائم ہوتا گیا اور ہوتا جا رہا ہے۔ اسی کی اتنی برکت ہے کہ صرف فوج کی اپنی کمٹمنٹ کی وجہ سے نہیں عدلیہ کے کردار اور انداز کے باعث بھی ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے امکانات، جو ہر بحران میں بڑھتے ہوئے عملی شکل اختیار کر لیتے تھے، معدوم ہو گئے۔ میڈیا کی آزادی اور کردار دونوں کا رخ جمہوریت کو تقویت پہنچانے کی طرف رہا۔ سب کچھ آئیڈیل تو نہیں لیکن بہت کچھ وہ ہوا اور ہو رہا ہے جس کا تصور ایٹ لارج اذہان سے ختم ہوتا جا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پانامہ لیکس کے ذریعے احتساب کا قدرتی راستہ نکلنے کے باوجود ملک میں گلی گلی اور میڈیا پر یہ بحث جاری رہی کہ لیکس کا نتیجہ کچھ بھی نہ ہو گا یا یہ کہ اب تو احتساب کو نہیں روکا جا سکتا۔ بالآخر وہ ہوا جس کا امکان کم تر تھا، یعنی بڑی بڑی مچھلیوں کا جال میں آ جانا اور پھنس کر رہ جانا۔
عوام کی حالت جملہ مسائل سے بدتر ہوئی تو سی پیک اور پانامہ لیکس جیسے قدرتی حالات نے پاکستان کا رخ ایسی جانب کر دیا جو الیکشن 18ءکے بعد اسے حقیقی جمہوریت کے مسلسل ارتقا میں ڈال دے گا۔ ریاستی اداروں کا قومی جائزہ ،تنقید اور نیب کا اپنے آئینی کردار کے مطابق سرگرم اور نتیجہ خیز بن جانے سے پاکستان میں امیدوں کا ایک نیا جہان آباد ہوا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین