• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمرانی اختیار نہیں ذمہ داری ہے، مکمل اور قابل تقلید باپ کی طرح جو اپنی اولاد کو یکساں محبت، ذمہ داری اور جانفشانی سے پروان چڑھاتا ہے، ان کی ضرورت اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق تیار رہنے کیلئے ان کی مناسب دیکھ بھال اور تربیت کرتا ہے۔
صحرائے عرب کے قدیم بدو سردار سے پوچھا، تمہیں اپنی اولاد میں سب سے پیارا کون ہے؟ کہا، سب سے چھوٹا، تاآنکہ وہ بڑا ہو جائے۔ بیمار، حتیٰ کہ وہ تندرست اور صحت مند بن جائے۔ مسافر، جب تک کہ وہ خیریت سے واپس لوٹ آئے۔ یہ ایک ذمہ دار اور محبت کرنیوالے باپ کا ضابطہ حیات ہے۔ سب سے محبت کرتا ہے لیکن اس کی توجہ بڑے، چھوٹے یا منجھلے کی طرف نہیں، کمزور اور ضروتمند کی طرف ہوتی ہے۔
گھر میں عدم توازن اور ریاست میں فساد اس وقت شروع ہوتا ہے جب باپ یا حکمران ذمہ داری کو اپنا اختیار سمجھنے لگے، اختیار اور حق شخصی حکمرانی، زیادتی اقتدار اور تکبر پیدا کرتا ہے، ذمہ داری میں عاجزی اور مشقت ہے مگر عزت، وقار اور احترام بھی۔
ناخواندہ بدو بھی شعور رکھتا ہے کہ سب سے چھوٹے اور نوزائیدہ کو توجہ چاہیے کہ اپنے لئے وہ کچھ بھی کر نہیں سکتا۔ بیمار کو کہ عدم توجہ پر اس کی صحت زیادہ بگڑ سکتی ہے۔ مسافر کیلئے ماں کا دل دھڑکتا ہے اور باپ فکرمند کہ مسافرت میں اس کے ساتھ نجانے کیا بیت جائے۔
محدود آمدنی والے مگر نمود و نمائش کے عادی والدین کبھی اچھا گھرانہ تشکیل نہیں دے سکتے۔ ان کے بچے آوارہ، گھر سکون و راحت سے محروم، ماں بچے کی فیس ادا کرنے کے بجائے پرس خرید لے اور باپ دوا کے پیسے سے ہوٹل میں دوستوں کی میزبانی کرے تو اس خاندان کا کیا ہو گا؟
آج کل ہمارے ملک کے سیاسی افق پر’’ووٹ کی عزت‘‘ کا نعرہ گونجتا ہے، ووٹ کیا ہے؟ اس کی عزت کے درپے کون ہوا؟ نعرہ زن لیڈروں نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ عوام کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کو اس کے نعرے، وعدے اور شائع کردہ منشور کو ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ان کی امانتوں کی حفاظت کرے اور ان کے بنیادی حقوق اور اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کا اہتمام کرے۔ کوئی ماں باپ جن کی آمدنی کے ذرائع محدود ہوں وہ موجود رقم سے گھر میں روٹی کا بندوبست مشکل سے کر پا رہے ہوں۔ اس گھر میں بیماری گھس آئے مگر وہ ہمسایوں سے قرض لے کر بچے کے لئے دوا دارو کا انتظام کرنے کے بجائے قرض کی رقم سے موٹر سائیکل خرید لے۔
ہماری ریاست کی آمدنی محدود ہے اور ہم اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ہر سال قرض اٹھاتے ہیں اور اگلے برس آمدنی مزید کم ہو جاتی ہے اس لئے کہ پچھلے سال کا قرض اور اس کا سود اور اس پر سود کا بوجھ بڑھ گیا ہوتا ہے۔ شہریوں کیلئے صاف پانی میسر نہیں اور غیر صحت بخش پانی کی وجہ سے جان لیوا بیماریاں جنم لے رہی ہیں ان بیماریوں کے سبب اسپتالوں میں رش بڑھ گیا ہے، جگہ کم پڑگئی ہے اور ادویات کی طلب نے بجٹ کو زیادہ غیر متوازن بنا دیا ہے چنانچہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے حکومت وقت نے مزید قرضہ لے کر خزانے پر بوجھ بڑھا دیا کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی ملے تو بیماریوں سے نجات حاصل ہو، اسپتالوں اور ادویات کی مد میں جو بچت ہو گی اور صحت مند شہری جو کمائیں گے اس پر ٹیکس کے ذریعے حکومت آہستہ آہستہ پانی پر لیا گیا قرض واپس کر سکے گی۔ شہریوں کی امیدوں کو مستقبل کی آرزئوں میں الجھا کر لاچار اور بے بس قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا۔
حکمران کے ارب پتی بیٹے نے پانی کے قرض کی رقم سے چار عدد بلٹ پروف گاڑیاں خرید لیں۔ بیورو کریٹ جو پہلے ہی ریاست کا تنخواہ دار ملازم ہے اس کو پندرہ لاکھ مہینے کی تنخواہ پر پھر سے ملازم رکھ لیا گیا۔ دوہری تنخواہ پانے اور دوہری آمدنی پانے والے کی دوہری آمدنی اس بات کا معاوضہ تھا کہ حکمرانوں کے بیٹوں، دامادوں اور کاسہ لیسوں کو ’’نوازا جائے‘‘۔
چار ارب روپیہ خرچ کرنے کے بعد چیف سیکرٹری سپریم کورٹ میں اس خوشخبری کے ساتھ پیش ہوئے کہ پانی فراہم کرنے کیلئے بنائی گئی کمپنی نے چار ارب روپے خرچ کرکے شہریوں کو ایک بوند پانی بھی مہیا نہیں کیا۔ یہ ایک ایک بوند کی محرومی تو کوئی پیسہ خرچ کئے بغیر بھی میسر تھی تو پھر ان بھاری اخراجات کی ضرورت کیا تھی؟ دفتر، گاڑیاں، تنخواہیں، بااثر افراد کو رشوت دینے میں ساری رقم خرچ ہوئی، البتہ قرض اور اس پر لگنے والا سود قوم اور اس کی نسلوں کیلئے ہمارے تیز رفتار حکمرانوں کی ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کا تحفہ ہے۔ یہ داستان پانی کی کمپنی تک محدود نہیں، صفائی، صحت اور دیگر چھپن کمپنیاں ایسی ہی ہوش ربا داستانوں سے عبارت ہیں۔ عوام نے ووٹ دیے اپنی حفاظت اور ضرورت کو پورا کرنے کیلئے، ریاست کی آمدنی بڑھانے کیلئے، قوم کا کاروبار، تجارت اور صنعت کی ترقی کیلئے جن کی حفاظت مطلوب تھی وہ ایک لاکھ کی تعداد میں مارے گئے جو بے چارے حفاظت پر مامور تھے وہ دس ہزار سے زیادہ شہید ہوئے۔ ان کے مصائب کو کم کرنے کے نام پر ہمسایوں کی منت سماجت سے قرض لیا۔ اس قرض میں 70کروڑ روپے، ارب پتی حکمران کے ایک گھر کے گرد حفاظتی دیوار بنانے پر خرچ ہوئے۔ وہ دیوار جو اپنی ذاتی دولت سے بنائی جاتی تو اس پر پانچ کروڑ سے زیادہ خرچ نہ ہوتا۔ ملک بھر میں سب سے بہترین غسل خانے کو مزید بہتر کرنے کیلئے چار کروڑ روپے خرچ کئے گئے جبکہ دوکنال کا گھر چھ سونے کے کمرے، غسل خانوں اور دیگر سہولیات کیساتھ صرف ڈیڑھ کروڑ میں بن جاتا ہے تو بنے بنائے کو نازک طبع کے مطابق ڈھالنے میں اتنا خرچ ہوا جو بے چھت کے غریب لوگوں کیلئے کم از کم ایک سو چھتیں گھر فراہم کر سکتا تھا۔ ’’ووٹ کا تقدس ‘‘ہے کہ انہیں دھوکا دے کر حکمرانی حاصل کرو، ان کی صنعت، تجارت، ادارے تباہ کر کے اپنی آمدنی اور ذاتی کاروبار کو تین ہزار گنا بڑھانے والے عوام کو بے روزگاری، عدم تحفظ، صنعت و تجارت کی تباہی کے حوالے کر کے مزید حکمرانی کا تقاضا لئے حاضر ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کو ذمہ دارانہ نظام حکومت قرار دیا جاتا ہے۔ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے۔ یہاں پر صرف عوام کو ذریعے کے طور پر استعمال کر کے پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت گویا پی پی یا (ن) کی حکومت، زرداری اور شریف خاندان کیلئے عوام کے ذریعے بنا دیا گیا ہے۔ یہ ووٹر کی عزت اور ووٹ کا تقدس ہے کہ چار برس کی حکمرانی میں دس کروڑ ووٹر اور بیس کروڑ عوام کے مفاد یا حفاظت کیلئے ایک بھی قانون پاس نہ کیا جائے۔ غریب قوم کے اخراجات پر چار برس میں تین سو دن غیر ملکی دورے کئے جائیں وہ بھی اپنے خاندان سے ملاقات اور ذاتی کاروبار کو دیکھنے کیلئے، پارلیمنٹ میں قوم کو گمراہ کرنے کیلئے غلط بیانی کی جائے، اپنے خاندان اور ذاتی شادیوں کی تقریبات کیلئے قومی ایئرلائن کے طیارے استعمال ہوں اور ان کے بھاری اخراجات غریب عوام کی جیب سے ادا کئے جائیں۔ نااہلی اور بدعنوانی سے بچنے کیلئے رات بھر میں قانون سازی کرلی جائے۔ عوام کے عقیدے اور جذبات سے کھیلنے کیلئے تحفظ ختم نبوتؐ کے قوانین بدل دیئے جائیں۔ ریاستی طاقت اور پولیس سیاسی حریفوں کو دبانے کیلئے بے دریغ استعمال ہو۔ جرائم میں ملوث افسران کو قانون سے بچانے کیلئے دوسرے ملکوں میں اعلیٰ عہدے سونپ دیئے جائیں۔ ذاتی مقدمات کیلئے مقرر کئے گئے وکلاء کو معاوضے میں سرکاری پلاٹ بخش دیئے جائیں۔ چار سال کی حکمرانی میں سینیٹ کے حصے میں دو دن اور قومی اسمبلی کو تیس دن ’’زیارت‘‘ نصیب ہو۔ وہ بھی اس لئے کہ تحریک انصاف کے دھرنے حکومت کی جان کو اٹک گئے تھے۔ حال ہی میں سینیٹ کے الیکشن ہوئے، تین صوبوں میں منڈی لگی، صوبائی اسمبلیوں کے ممبران گھوڑوں، گدھوں کی طرح ’’بکے‘‘ اور خریدے گئے۔ یہ بکائو مال اپنے صوبوں کیلئے پانچ برس تک قانون سازی کرتا رہا، خریدنے والے سمگلر، بھتہ خور، ناجائز فروش، قانون شکن اگلے چھ سال تک اس بدقسمت قوم کیلئے قانون سازی کیا کریں گے۔
بکنے والے چند ’’جری‘‘ عمران کے ہاتھوں رسوا ہوئے مگر خریداروں کا کیا بنا؟ وہ قوم کے سینے پر مونگ دلنے اور قانون کا مذاق اڑانے کیلئے اعلیٰ ایوانوں میں دندناتے پھریں گے۔
؎کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین