• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیڑا غرق
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار: پنجاب میں تعلیم کا بیڑا غرق، خلاف میرٹ 3وی سیز مستعفی، ایک معطل۔ دل کے اسپتال میں بےضابطگیوں پر انکوائری کا حکم، اوورسیز پاکستانیز کمشنر کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، الغرض کیا کیا بتائیں کہاں تک سنو گے کہ چیف جسٹس نے دو دنوں میں اصلاح احوال کے حوالے سے کیا کیا کر دیا، انہوں نے خادم اعلیٰ کو یاد کیا کہ وہ ہوتے تو ان کو یہ سب کچھ دکھاتے مگر وہ کراچی گئے ہوئے تھے، کیسی عجیب بات ہے کہ تعلیم کا بیڑا خشکی پر غرق ہو گیا اسے سمندر کی ضرورت پڑی نہ چلو بھر پانی کی ۔حیرانی مع پریشانی ہے کہ چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے بغیر میرٹ کے چانس لے لیا، ایک خاتون وائس چانسلر نے مستعفی ہونے سے انکار کیا تو معطل، گاڑی میں بیٹھ کر بھی فریادی کی فریاد سنی، ایک طرف ووٹ کے ساتھ عدل اور اس کی عزت کرنے کی تحریک اور ساتھ ہی عدل چل کر دہلیز پر، ایسا پہلے تو کبھی نہ ہوا، چیف سیکرٹری کی تنخواہ ایک لاکھ 80ہزار اور اوورسیز کمشنر کی ساڑھے پانچ لاکھ، یہ تو سب کچھ ہے مگر جو تعلیم کا بیڑا غرق ہوا اس میں سوراخ کس سواری نے کیا؟ سچ تو یہ ہے کہ تعلیم سے 70سالہ ظلم نے ہی سارے پیمانے توڑے، کہئے خالی پیمانوں کو کون منہ لگائے؟ انہوں نے خواتین یونیورسٹی لاہور کی وی سی کی تعیناتی میں ایک وفاقی وزیر کے کردار کو بھی خوب ’’سراہا‘‘ اور محترمہ نے ان کے فیصلے کا انکار کر دیاتو معطل ہوئیں، الغرض یہ تھا غرق بیڑے کا احوال اب اسے کیسے سطح پر لایا جائے گا یہ تو وقت نے بتا دیا اور مزید بہت کچھ بتائے گا۔
٭٭٭٭
گندے انڈوں کی ٹوکری
مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کو مخاطب کر کے فرمایا؎
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
تری ٹوکری کے انڈے سارے گندے
ہم نے مولانا کے بیان کو منظوم کر دیا تاکہ کوئی انڈا تو بچ جائے، اور کہتے ہیں کہ پانچ پہلے ہی بچا لئے گئے تھے اب ان پر کوئی سینئر ککڑی بٹھا کر چوزے نکالے جائیں گے کیونکہ 20کو نکالنے کے بعد پوری پارٹی انڈر ویٹ ہو گئی ہے، فضل الرحمان واحد سیاستدان ہیں جو خسارے میں نہیں، ورنہ باقی سارے تو کہیں نہ کہیں سے گندے انڈوں کی ٹوکری سے کسی نہ کسی حوالے سے قربت رکھتے ہیں، مولانا نے یہ بات بھی کی کہ جب تک اداروں پر عوام کا اعتماد نہیں ہو گا حقیقی جمہوریت کا تصور ناپید ہے وہ اگر یوں کہتے کہ جب تک خواص کا اعتماد نہیں ہو گا تو حقیقی جمہوریت کے بجائے حقیقت کو پا لیتے مگر وہ اس طرح بہت کچھ کھو دیتے اور خسارے کا سودا وہ ہرگز نہیں کرتے، یہ بات انکی بڑی اچھی ہے کہ نہ وہ پاناما میں ہیں، اور نہ ہی ان پر ذرائع و وسائل سے زیادہ اثاثے رکھنے کا الزام، ساری لاٹ میں وہ ’’اَن ٹچڈ‘‘ ہیں، ورنہ باقی سب تو کہہ رہے ہیں؎
تن ہے سارا داغ داغ
مرہم کہاں کہاں رکھوں
کہیں ایسا تو نہیں ہماری سیاسی ٹوکریاں ہی ایسی ہیں کہ ان میں تازہ انڈے بھی گندے ہو جاتے ہیں، خان صاحب اپنی ٹوکری بھی چیک کر لیں شاید کوئی چِک بچ جائے، ہمیں انڈوں، چوزوں اور مرغوں کے ذکر سے ایک عرب کے بھٹو بارے یہ ریمارکس یاد آئے کہ ’’یہ وہ مرغ ہے جو اذان تو دیتا ہے نماز نہیں پڑھتا‘‘مگر اب تو اذان دینے والا کوئی مرغا بھی نہیں کہ قوم بروقت نماز ہی پڑھ لے، ہمارے اندر برداشت بہت کم ہو گئی ہے، کچھ وہمی بھی ہو گئے ہیں، ہر بندے میں خدا تلاش کرنے کے بجائے اسے خدا بنانیکی کوشش کرتے ہیں کیونکہ جذبہ پرستش بیتاب ہے، مگر اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، چپکے سے احساس دلا دیگی کہ یہ میں ہوں تیرا رب اور تیرے سارے کرتوت جانتا ہوں چاہے تو کتنا ہی خود کو کیموفلاج کر لے۔
٭٭٭٭
جڑواں سیاسی بچے
بلاول زرداری بھٹو نے کہا ہے:نواز شریف زندگی بھر ڈکٹیشن لیتے رہے، اب ڈیل کی کوشش میں ہیں۔ پی پی اور ن لیگ جڑواں بچے ہیں آپس میں نہ لڑیں ڈکٹیشن کی بات نہ کریں کہ ن لیگ تو فارغ التحصیل ہے آپ ابھی اسکول داخل ہوئے ہیں استاد تختی کچی کر کے دیتا ہے اور آپ اس پر قلم پھیرتے ہیں، جس کسی نے بھی یہ کہا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے غلط کہا، اگر حالت جنگ میں کوئی اپنا قبلہ سیدھا رکھے گا تو حالت امن میں تو قبلہ و کعبہ بن جائے گا، اخلاقیات سے گرنے کی اجازت کسی بھی حال میں نہیں دی جا سکتی، انتخابات قریب ہیں، جلسوں کی بھرمار ہے۔ قوم کو اپنا اپنا سودا بیچنے کی مارکیٹنگ ہو رہی ہے، اس لئے کم از کم اہل سیاست کو الفاظ کا چنائو احتیاط سے کرنا چاہئے، ہم یہ نہیں کہتے کہ بلاول نے کوئی نازیبا لفظ کہا، نہیں یہ ماننا ہو گا کہ بلاول ایک مہذب پڑھا لکھا نوجوان ہے، اپنی بات اچھے لفظوں میں بیان کر دیتا ہے، ڈکٹیشن کی بات تو پلے پڑی مگر یہ ڈیل والی بات تو’’ کھوئی والی گل‘‘ ہے یہ انہوں نے کیوں طشت ازبام کر دی، بہرحال وقت کئی حسیں ستم کرتا ہے کوئی ایسا موڑ بھی آ سکتا ہے کہ ڈیل پی پی سے ہو جائے اور باریوں کی گنجائش باقی نہ رہنے کی صورت میں دونوں بڑی جماعتیں یکجان ہو کر پینگ پر چڑھ جائیں اور پینگ کافی اونچی چلی جائے اور پی ٹی آئی نیچے کھڑی دیکھتی رہ جائے، بہرحال ممکن ہے مفاہمت واقعتاً انتقال کر گئی ہو اور دوبارہ زندہ نہ ہو مگر کہتے ہیں سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، دو بڑے جب چھوٹے ہو جائیں تو مل کر ایک بڑا بھی تو ہو سکتے ہیں، بہرصورت یہ اندیشہ ہائے دور دراز بھی ہیں اور قریب تر بھی، یہ سیاست ہے یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭
پکے رنگ
....Oخواجہ سعد رفیق:ہمارے رنگ آمریتوں کے ٹارچر سیلوں میں نہیں اُڑے۔
پکے رنگ کا یہی تو فائدہ ہے۔
....Oفواد چوہدری:سراج الحق ایک طرف تنقید اور دوسری طرف اقتدار سے چمٹے ہیں۔
جماعت اسلامی یہ نہ کرے تو کیا کرے؟
....Oشیخ رشید:ن لیگ کے مزید لوگ بغاوت کریں گے، نومبر سے پہلے الیکشن نہیں ہوں گے۔
شیخ صاحب آپ کنوارے ہیں کوئی یہ کہنے والی بھی نہیں،چل جھوٹے!۔
....Oشجاع آباد:بیٹی کے اغواء کا شک، زمیندار کا نوجوان پر بدترین تشدد، ٹانگیں توڑ دیں۔
یہ دیہات میں زمینداروں، پنچائتوں کی من مانیاں کب ختم ہوں گی اور کون ایسا کرے گا؟ سوشل میڈیا ایسے ظالموں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا۔
٭٭٭٭
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین