• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بڑا قدم اٹھا لیا ہے تو بھی لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ نئے انتخابات اب زیادہ دور نہیں ایسے نازک موقع پر اپنے صوبائی اسمبلی کے بیس ارکان کے خلاف ایکشن لینا کوئی ہنسی کھیل نہیں بڑے حوصلے اور جی داری کا کام ہے۔ عمران خان کے اس قدم سے ان کی حکومت گرنے کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایک سو تیئس ارکان پر مشتمل اسمبلی میں حکومت سازی کے لئے سادہ اکثریت64 ارکان بنتی ہے اب جبکہ بیس ارکان کے نام کرپشن کے باعث الگ کردئیے گئے تب تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 65سے کم ہو کر 45 رہ گئی ہے اس میں اگر ان کی اتحادی جماعت اسلامی کے8ارکان بھی شامل کرلئے جائیں تب بھی تعداد 53بنتی ہے جو سادہ اکثریت کے مقابلے میں گیارہ ارکان کم ہیں۔ اس طرح ان کی جماعت اقتدار سے ہاتھ دھو سکتی ہے۔ چونکہ انتخابات قریب ہیں اس لئے کوئی حریف اس کی جرأت نہیں کر رہا کیونکہ ان کے پاس تو53ارکان کی تعداد بھی ممکن نہیں۔ اس لئے ان کے حامی اور دیگر جماعتوں کے لوگ جن کا خیبر پختون خوا میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ان کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں، ان کی جرأت کی تعریف کر رہے ہیں لیکن جن کے مفادات کے پی سے وابستہ ہیں وہ تماشا نہیں دیکھ رہے بلکہ وہ آنے والے وقت کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ اس نے سینیٹ میں اپنی کامیابی کے لئے بے دریغ خرچہ کر کے ووٹوں کو خریدا ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ خرید و فروخت تو ہمیشہ سے ہی ہوتی رہی ہے کبھی کم کبھی زیادہ جس میں جتنا دم ہوتا ہے وہ اتنا ہی زور لگاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خریداروں کے دام میں اضافہ ہوتا رہا ہے یہ بھی کوئی نیا کھیل نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی ایک منظم اور قومی جماعت ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پورے پاکستان میں وہ اکثریت سے کامیاب ہو لیکن پس پردہ قوتیں جس کو جب چاہتی ہیں تاج پہنا دیتی ہیں۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے اب کی بار شایدزرداری کی باری ہے میاں صاحب کا آرام کا وقت ہے لیکن یہ فیصلہ میاں صاحب کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا وہ بضد ہیں کہ حکومت ان کو ہی ملنی چاہیے کیونکہ ووٹر ان کے ساتھی و حامی ہیں جہاں تک جلسوں جلوسوں کا تعلق ہے یہ کوئی کامیابی کی دلیل نہیں ان میں زیادہ تر تماش بین ہوتے ہیں کبھی کبھی مخالف جماعت والے بھی اپنے مخالف کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کے لئے اپنے حامیوں کو تماشا دیکھنے کے لئے پہنچا دیتے ہیں یا کبھی ناراض مخالفین ہنگامہ آرائی کے لئے بھی اپنی افرادی قوت استعمال کرتے ہیں دیکھنے میں تو جلسہ گاہ بھرپور نظر آرہی ہوتی ہے لیکن حقیقی ووٹر اس تعداد میں نہیں ہوتے اب تحریک انصاف کے اس مثبت قدم پر لوگ جو چہ میگوئیاں کر رہے ہیں ان کے خیال میں تیس بتیس فیصد ارکان اسمبلی کو اس وقت اس لئے فارغ کیا ہے تاکہ وہ لوگ آنے والے انتخابات میں پھر پارٹی ٹکٹ کے امیدوار نہ ہوسکیں۔ کیونکہ دوسری جماعتوں سے آنے والوں کو بھی تو کھپانا ہوگا اگر وہی پرانے لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا تو نئے آنے والے کہاں جائیں گے اکثر آنے والوں کی تعداد اسمبلی ارکان کی ہے وہ اپنی نشست چھوڑ کر آرہے ہیں انہیں کیسے مایوس کیا جاسکے گا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ جن ارکان اسمبلی کو عمران خان نے فارغ کیا ہے ان کے حلقوں میں ان لوگوں کی پذیرائی نہیں تھی۔ دوبارہ ان کا ان ہی حلقوں سے کامیاب ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہے اس لئے بھی صفائی کی گئی کہ ان حلقوں سے نئے امیدوار کھڑے کیے جاسکیں گے۔ پھر سب سے اہم بات یہ کہ عمران خان نے ایک اچھی اور مثبت روایت قائم کی ہے ان کے قدم کسی انتخابی خوف نے نہیں روکے انہوں نے بلا خوف و خطر جو کرنا تھا کر گزرے ۔سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر ہمیشہ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتی رہتی ہیں لیکن اس بار پیپلز پارٹی پر اس لئے بھی الزامات لگ رہے ہیں کیونکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اس کی صرف چھ نشستیں ہیں اور سینیٹ کے انتخابات میں اسے مزید دو سینیٹ کی نشستیں حاصل ہوگئی ہیں۔
تحریک انصاف نے جن بیس ارکان کو نکالا ہے ان کے ردعمل بھی سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے ہمیں صفائی کا موقع دئیے بغیر ہمارے خلاف تادیبی کارروائی کر ڈالی ہے۔ اب جبکہ ہمارے نام بھی نہیں چہروں پر بھی کالک مل دی گئی ہے تب ہمیں اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے شوکاز نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔ تحریک انصاف سے ہمیں اس نا انصافی کی قطعی توقع نہیں تھی، خان صاحب نے صرف سستی شہرت کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے اگر ہم نے بدعنوانی کر کے چیئرمین سینیٹ کو منتخب کرایا ہے تو ان کا انتخاب بھی کالعدم ہونا چاہیے۔ ہم بیس لوگوں کے ووٹ اگر کامیاب ہونے والے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے نکال دئیے جائیں تو معاملہ یوں بھی صاف ہوسکتا ہے اگر ہم نے کوئی بدعنوانی کی ہے تو قصوروار دراصل وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہم سے یہ بدعنوانی کرائی ہے (جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا) لیکن خواتین ارکان نے تو حلف اٹھا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سرعام پریس کانفرنس کے موقع پر قرآن کریم اٹھا کر حلفیہ بیان دیا ہے۔ اب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا اس پر کیا ردعمل آتا ہے یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ احکامات کہیں اور سے آئے تھے اس لئے ووٹر نے مجبوراً بغیر کچھ لئے ہی ووٹ مبینہ حکم کے مطابق استعمال کیے ہیں۔ آنے والے انتخابات کا خاکہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا جارہا ہے۔ زرداری صاحب یونہی نہیں کہہ رہے کہ آنے والا وقت ان کی جماعت کا ہے پنجاب میں بھی اب کے ان کی باری ہے۔ حکومت ان کی جماعت کی ہوگی مرکز اور خصوصاً پنجاب میں۔ سندھ تو ہے ہی ان کی جماعت کا۔ کچھ پیپلزپارٹی مخالفین کا خدشہ ہے کہ اس بار انتخابات میں بڑی گڑبڑ ہوگی، بڑا خون خرابہ ہوگا، کوئی بھی پارٹی بھاری اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی، ہر صوبے میں اور مرکز میں مخلوط حکومت بنے گی نہ اس بار خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنے گی، پنجاب اور خیبر پختونخوا کا حشر بھی وہی ہوگا جو بلوچستان کا ہوا ہے، سندھ میں بھی پیپلزپارٹی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی، یہاں بھی ان کے حلق میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف اٹکائی جائے گی۔ انتخابات اب زیادہ دور نہیں جلد ہی الٹی گنتی شروع ہونے والی ہے۔ نگراں حکومت تشکیل پاتے ہی نظام مملکت میں ایسی ہلچل مچے گی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ ہر کوئی اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہا ہوگا بدعنوان لوگوں کی زبانیں جس بدعنوانی کا اظہار کر رہی ہیں اللہ کرے کہ ان کے منہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں اور مملکت خداداد پاکستان کو اللہ ہر آزمائش میں پورا اتارے آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین