• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مرتبہ پھر اسرائیلی درندوں نے نہتے فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ بمباری کر ڈالی ہے۔ غاصب اسرائیلیوں کی اندھا دھند فائرنگ سے تادم تحریر 18فلسطینی شہید اور 1600زخمی ہوگئے ہیں۔ زخمیوں میں زیادہ تر معصوم بچے اور خواتین ہیں۔ جمعہ کے دن ’’یوم الارض‘‘ کے موقع پر فلسطین بھر میں مہاجرین کی واپسی کے لیے اسرائیلی سرحدوں کے قریب ہزاروں فلسطینی مسلمان پرامن احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے تاکہ عالمی برادری کے کانوں تک یہ بات پہنچ سکے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے حماس راہنما اسماعیل ہانیہ نے مطالبہ کیا کہ مہاجر فلسطینیوں کو واپسی کا حق دیا جائے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں 1500مرد، 400کے قریب معصوم بچے اور 210خواتین صعوبتیں اُٹھا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکا ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز1947ء سے ہوا۔ اس کے بعد سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے حالانکہ قیام امن کے بین الاقوامی منصوبے کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا وعدہ کیا تھا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں۔ انصاف تو ملاحظہ کیجیے! اسرائیل نے85فیصد پانی اپنے یہودی آباد کاروں کے لیے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی15فیصد فلسطینی مسلمانوں کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔ غربِ اردن اور غزہ میں بنی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی اصولوں کے تحت غیر قانونی ہیں۔ بش دور میں دنیا میں سب سے زیادہ امداد اسرائیل کو دی گئی۔ امریکا کے بیشتر خیراتی ادارے اپنی ساری رقم اسرائیل کو بھیجتے ہیں۔ پھر ان امدادی رقوم کو فلسطینیوں کے استحصال کے ’’کارِ خیر‘‘ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ ’’عطیرت کوہنیم‘‘ نامی ایک اسرائیلی تنظیم امریکا سے تعلیم کے فروغ کے لیے امداد وصول کرتی ہے لیکن اس رقم سے عربوں کی جائیداد خرید کر یہودیوں کو مفت فراہم کرتی ہے۔ ایک اور ادارہ ’’امریکن فرینڈز آف کوہنیم‘‘ ہر سال لاکھوں ڈالر امریکا سے جمع کرکے فلسطینی زمینوں پر تعمیرات کرتا ہے۔ 1970ء سے لے کر اب تک یہ تنظیم اربوں ڈالر اسرائیل کو فراہم کرچکی ہے۔ اس تنظیم نے غریب فلسطینیوں کو ہدف بنارکھا ہے۔ تنظیم کے کارکن غریب فلسطینیوں کے پاس جاکر انہیں زیادہ سے زیادہ قیمت کا لالچ دیتے ہیں اور مکان خرید کر اسرائیلیوں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے مگر کوئی نہیں جو آواز اُٹھائے۔ اسرائیل کا ایک بڑا جرم غیر قانونی اور ممنوع اسلحے کا بے دریغ استعمال ہے۔ قانون کے مطابق جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کرسکتا، مگر غزہ جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔ اس پر ڈاکٹروں کی رپورٹیں شاہد ہیں۔ اسرائیل کا ایک جرم اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کا خناس ہے۔ جب سے مشرقِ وسطیٰ کے دل میں ’’اسرائیل‘‘ کی صورت خنجر گھونپا گیا ہے اس وقت سے اس کے پُرامن حل کے لیے کئی قراردادیں پاس ہوئیں۔ کئی فارمولے طے کرلیے گئے، لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی دیکھیے!اس نے ہر قرارداد کی خلاف ورزی ہی کی اور کررہا ہے۔ اسرائیل نے 1967ء میں القدس پر قبضہ کیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک فلسطین کے مسئلے کو سلجھانے کے لیے ایک درجن کے قریب اہم اور عالمی سطح پر قراردادیں منظور ہوئیں۔ ان میں سے اکثر کو امریکا نے ویٹو کردیا۔ پہلا امن فارمولا ایک سوئیڈش سفارت کار ’’فاک برنادوت‘‘ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کیا جس میں بیت المقدس کو عربوں کے حوالے کرنے، حیفہ کو فری بندرگاہ اور ’’لُد‘‘ کو فری ائیرپورٹ بنانے کی تجویز تھی لیکن اسرائیلیوں نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ 1969ء میں ’’ولیم پی راجرز‘‘ کی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا گیا جس میں کہا گیا اسرائیل، مصر اور اُردن باہم مل کر 1967ء کی جنگ کے مقبوضہ علاقوں سے جارح فوجوں کے انخلا کا پروگرام مرتب کریں۔ پھر 1993ء میں ناروے کے شہر ’’اوسلو‘‘ میں اسرائیلی اتھارٹی اور یاسر عرفات کے مابین ’’اوسلو معاہدہ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد 2002ء بیروت میں منعقدہ عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں ’’شاہ عبداللہ کا منصوبہ‘‘ کے نام سے ایک حل پیش کیا گیا۔ اس کے بعد 2003ء میں ایک روڈ میپ پیش کیا گیا۔ 2006ء میں فرانس، اٹلی اور اسپین کی طرف سے ایک امن منصوبہ بنایا گیا جس میں اہم بات یہ تھی کہ فوری طور پر سیز فائر ہو اور ایک دوسرے کے قیدی رہا کردیے جائیں۔ مارچ 2007ء ریاض میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں ایک امن منصوبہ پیش کیا گیا۔ گویا 1967ء سے لے کر اب تک مختلف ممالک اور اہم شخصیات کی طرف سے درجنوں امن منصوبے پیش کیے گئے لیکن کسی کو اسرائیل کے پشت پناہ امریکا نے ویٹو کردیا تو کسی کو اسرائیل نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کیا اسرائیل اتنا منہ زور ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے لے کر عرب لیگ تک کسی کی بات پر عمل کرنے کو تیار نہیں اور وہ آئے دن نہتے اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم وستم اور بربریت کے نئے نئے تجربے کررہا ہے۔ جب غیرجانبدار ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جو اسرائیل کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو خاک وخون میں تڑپادیا جاتا ہے۔ عیسائی ریچل کوری کی مظلومانہ موت کسے یاد نہیں۔ اب تو شاید انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اسرائیلی مظالم اور اس کے مکروہ عزائم کو سمجھ چکی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں سالانہ285فلسطینیوں کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے شہید کیا۔ 9دسمبر 1987ء سے28ستمبر 2000ء تک1378 فلسطینی شہری شہید کیے۔ 29 ستمبر 2000ء سے 31اکتوبر 2007ء میں 4304 افراد کو شہید کیا گیا۔ ان برسوں کے دوران 1144بچے بھی شہید کیے گئے۔ صرف گزشتہ 7برسوں میں اسرائیل کے ہاتھوں 863بچے شہید کیے گئے۔ خود اسرائیل میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے سینٹر (Tselemb) کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 7برسوں میں367 فلسطینیوں کو براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 2043ایسے فلسطینی شہریوں کو بھی شہید کیا گیا جو کسی قسم کی سیاسی کارروائیوں اور جلوسوں میں شامل نہیں تھے۔ ادھر فلسطینی مرکزی ادارہ برائے شماریات کے اعدادو شمار کے مطابق فلسطین میں 2005ء تک 13 لاکھ افراد غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ تعداد 2006ء تک 21لاکھ سے تجاوز کرگئی تھی۔ اکتوبر 2007ء تک 8596افراد اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی عوام کو سزا دینے کی غرض سے اکتوبر2001ء سے جنوری 2005ء تک 668 گھر منہدم کردیے جس سے 4182افراد بے گھر ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 15لاکھ فلسطینی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 1995ء سے 2005ء تک 11برسوں میں 63افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس ہو شربا رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ امن کانفرنسوں، معاہدوں اور امن فارمولوں کے باوجود فلسطینی عوام کے دکھوں، غموں اور پریشانیوں میں آئے دن اضافہ ہی ہورہا ہے۔ کوئی دن جاتا جب فلسطینی مسلمانوں کے گھروں سے اسرائیلی مظالم کی وجہ سے جنازے نہ نکلتے ہوں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کا مسئلہ گزشتہ 66سال سے سلجھنے میں نہیں آرہا بلکہ ہرسال مزید اُلجھ جاتا ہے۔ فلسطین میں قیام امن کے لیے لازمی ہے کہ پہلے تمام متنازعہ امور طے کیے جائیں۔ پڑوسی ممالک میں لاکھوں فلسطینی مہاجرین کو باعزت واپسی کا حق دیا جائے جو ان کا پیدائشی حق ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں مہاجروں کی تعداد میں سب سے زیادہ اس وقت فلسطینیوں کی ہے۔ یہ تعداد 45لاکھ ہے۔ فلسطینیوں کے ہر 10میں سے 8باشندے مہاجر اور پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے اسرائیل کے سابق وزیراعظم بن گوریان نے ایک دفعہ یہاں تک کہا تھا فلسطینی عربوں کو یہاں رہنے کا حق ہی نہیں ہے لیکن دوسری طرف یہودیوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے فلسطین میں آباد ہونا یہودیوں کا بنیادی حق ہے۔ کیا ’’انصاف‘‘ ہے کہ جن فلسطینیوں کے پاس اپنے گھروں اور دکانوں کی ملکیت کے قانونی ڈاکومنٹ اور کاغذات موجود ہیں وہ تو حق دار نہیں، لیکن جن کے پاس کچھ بھی نہیں اور جن کو دنیا کے چپے چپے سے اکٹھا کرکے لایا گیا ہے وہ اس کے حق دار ہیں!!؟ اندریں حالات مسئلہ فلسطین کیسے حل ہوسکتا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین