• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے تعلیمی اداروں اور محکموں کی حالت پنجاب سے بھی خراب

کراچی (محمد عسکری / اسٹاف رپورٹر) سندھ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں اور محکموں کی صورتحال پنجاب سے بھی زیادہ خراب ہے، سات ہزار اسکول بند ہیں، سندھ کے 7 تعلیمی بورڈز گزشتہ تین سال سے مستقل کنٹرولرز اور سکریٹریز سے محروم ہیں جس کے باعث پرچے آئوٹ اور نقل سندھ میں معمول کا حصہ بن چکی ہے۔ یکم اپریل سے نیا تعلیمی سال شروع ہوچکا ہے لیکن درسی کتابیں وقت پر شائع نہ ہونے کے سبب سندھ کے اکثر سرکاری اسکول درسی کتب سے محروم ہیں جس کی وجہ سے درس و تدریس کا سلسلہ بند ہے، سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بغیر اشتہار دیئے نان پی ایچ ڈی شخصیت کو وائس چانسلر بنایا گیا ہے نوابشاہ جنرل یونیورسٹی ، آئی بی سکھر میں بھی براہ راست تقرریاں کی گئی ہیں، دونوں اداروں میں گزشتہ کئی برسوں سے نان پی ایچ ڈی شخصیات تعینات ہیں کراچی یونیورسٹی میں تلاش کمیٹی کے ایک رکن فضل الرحمان کے نمبر شامل نہ کئے جانے کے باعث پوری نمبرنگ تبدیل ہوگئی جس کی وجہ سے انتظامی تجربہ نہ رکھنے والی شخصیت وائس چانسلر ہوگئی اس صورتحال کی وجہ سے اساتذہ، ملازمین اور طلبہ سخت پریشان اور جامعہ کراچی کی انتظامی مسائل کا سامنا ہے، سکھر بورڈ اور لاڑکانہ بورڈ میں نمبر ون آنے والے اہل اور پی ایچ ڈی نظر انداز کر کے نمبر تین پر آنے والوں کو سیاسی تعلق کی وجہ سے چیئرمین لگا دیا گیا، وائس چانسلر کی تلاش کیلئے سندھ حکومت کی قائم کردہ تلاش کمیٹی کے پانچ مستقل اراکین جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ، مظہرالحق صدیقی، ایس ایم قریشی، انوار حیدر شامل ہیں اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن و سیکرٹری بورڈز و جامعات محمد حسین سید میں صرف ایک پی ایچ ڈی ہے۔
تازہ ترین