• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی:ن لیگ، اے این پی اور ایم کیو ایم کا اتحادنظر آرہا ہے،تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ جنسی ہراسگی کے الزامات پر کارروائی کیلئے کمپلینٹس کمیشن قائم ہونا چاہئے، اس کمیشن کی کارروائی خفیہ ہونی چاہئے تاکہ الزامات اور جوابی الزامات سے بچا جاسکے، جنسی ہراسگی کے واقعات کو ختم کرنے کیلئے ہیش می ٹو جیسی مہمیں چلتی رہنی چاہئیں، نواز شریف کو بطور سابق وزیراعظم جائز سیکیورٹی ملنی چاہئے ،سیکیورٹی اور پروٹوکول میں فرق ہونا چاہئے، کراچی میں ن لیگ، اے این پی اور ایم کیو ایم کا اتحاد بنتا نظر آرہا ہے،۔ ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، حفیظ اللہ نیازی، ریما عمر، شہزاد چوہدری، حسن نثار اور ارشاد بھٹی نے جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال میشا شفیع کا علی ظفر پر جنسی ہراسگی کا الزام، علی ظفر کی تردید، جنسی ہراسگی کے الزامات کو کس طرح حل کرنا چاہئے؟ کا جواب دیتے ہوئے ریما عمر نے کہا کہ عدالت میں جنسی ہراسگی ثابت کرنا بہت مشکل ہے،ایسے معاملات میں ملزم کی بات سننا بھی ضروری ہوتا ہے،آرگنائزیشنز میں عموماً جنسی ہراسگی کمیٹی ہوتی ہے لیکن وہ کام نہیں کرتی، اگر ملزم خود کو بے قصور سمجھتا ہے تو وہ ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ ریما عمر کا کہنا تھا کہ اگر ایک مرد اور عورت اپنی مرضی سے بات کررہے ہیں یا ان کے تعلقات ہیں تو یہ ہراسگی نہیں ہے، عورت کی مرضی کے خلاف اس کے ساتھ سلوک کرنا ہراسگی ہے، اس کو مغربی کلچر سے جوڑنا بہت افسوسناک بات ہے، پاکستان میں مردوں کو سمجھانا ہوگا کہ عورت ان کی جاگیر نہیں ہے۔حسن نثار کا کہنا تھا کہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جو صرف تعلیم اورتربیت سے پوری ہوسکتی ہیں، ان معاملات میں ہم بری طرح ناکام ریاست ہیں۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ فطری چیزوں میں کوئی قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے، میشا شفیع اور علی ظفر کے منیجرز اور پیٹرنز ان دونوں کو بٹھائیں اور معاملہ نجی طورپر حل کریں، اگر یہ عدالت جاتے ہیں تو تماشا لگے گا کوئی باعزت راستہ نہیں نکلے گا۔مظہر عباس نے کہا کہ ہمارے معاشر ے میں لوگ ملزم کو فوراً مجرم سمجھ لیتے ہیں، جنسی ہراسگی کے الزامات پر کاروائی کیلئے کمپلینٹس کمیشن قائم ہونا چاہئے، اس کمیشن کی کارروائی خفیہ ہونی چاہئے تاکہ الزامات اور جوابی الزامات سے بچا جاسکے، سوشل میڈیا کے ذریعہ ایسے الزامات لگائے جائیں گے تو بہت سے لوگ اس کی حمایت تو بہت سے مخالفت کریں گے،ہمارے جاگیردارانہ معاشرے میں عورت کو سزا کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے،جنسی ہراسگی کے معاملہ میں برا ہ راست شواہد نہ بھی ملیں تب بھی واقعاتی شواہد ہوتے ہیں۔ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ جنسی ہراسگی کے واقعات کو ختم کرنے کیلئے ہیش می ٹو جیسی مہمیں چلتی رہنی چاہئیں، ہمارے معاشرے میں می ٹو جیسی مہم چل جائے تو بہت سے لوگ خوفزدہ ہوں گے اگر یہ واقعات ختم ہوئے تب بھی بہت کم ہوجائیں گے۔عمران خان کے بیان ”چیف جسٹس کی سمت درست ہے وہ عام آدمی کے مسائل سن رہے ہیں“ پر تجزیہ کرتے ہوئے ریما عمر نے کہا کہ سیاسی لیڈروں کو عدلیہ کے معاملات پر بات نہیں کرنی چاہئے، ۔شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو عدالت یا چیف جسٹس سے متعلق رائے نہیں دینی چاہئے۔چیف جسٹس کے بیان ”نواز شریف کو بطور سابق وزیراعظم سیکیورٹی ملنی چاہئے؟ “ پر تبصرہ کرتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ نواز شریف کو بطور سابق وزیراعظم جائز سیکیورٹی ملنی چاہئے لیکن اتنی زیادہ نہیں جس طرح ابھی دی جارہی ہے۔مظہر عباس نے کہا کہ سیکیورٹی اور پروٹوکول میں فرق ہونا چاہئے۔چیف جسٹس کے ریمارکس”ازخود نوٹس لینے بند کردیئے، جو نوٹس لیے ہیں ان کو نمٹائیں گے“ پر تجزیہ کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے چاہئیں لیکن وہ محدود ہونے چاہئیں، اگر کوئی بہت ہی خاص نوعیت کا کیس ہو تو اس کا ازخود نوٹس ضرور لینا چاہئے۔
تازہ ترین