• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایگزیکٹ کے چینل کو لائسنس نہیں دے سکتے ، پیمرا کا جواب

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائیکور ٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی کے روبرو جعلی ڈگریاں بنانے والی بدنام زمانہ کمپنی ایگزیکٹ کے چینل کے لائسنس سے متعلق پیمرا نے اپنے دلائل میں کہاہےکہ شعیب شیخ کے پاس ذرائع آمدن نہیں اور اشتہارات کے بغیر ان کے چینل پر روز موٹر سائیکل ، لینڈ کروزر حتیٰ کہ ائیرکرافٹ تک دئیے جارہے ہیں، پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ کون دے رہا ہے؟ کچھ نہیں بتایا جا رہا اور ہم قانون کے پابند ہیں ایسے لائسنس نہیں دے سکتے۔ پیمرا اور وفاق کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عالیہ نے سماعت 14 مئی تک ملتوی کردی۔ تفصیلات کے مطابق پیر کو سندھ ہائیکور ٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی پر مشتمل سنگل بنچ نے ایگزیکٹ کے چینل کےلیے لائسنس سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس موقع پر پیمرا کے وکیل زاہد ابراہیم اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سلمان طالب الدین پیش ہوئے، پیمرا کے وکیل نے کہاکہ ہم نے کہہ دیا ہے جب تک فارن فنڈنگ بند نہیں ہوگی لائسنس نہیں دے سکتے، قانون کے مطابق پیمرا ایسے چینل کو لائسنس دے ہی نہیں سکتا، فارن فنڈنگ کا ایشو ہے ، وکیل پیمرا زاہد ابراہیم نے اپنے دلائل میں کہاکہ چینلز اشتہارات پر چلتے ہیں انکے پاس کوئی ذرائع آمدن نہیں ہیں، چینل پر روز موٹرسائیکل، لینڈ کروزر، حتیٰ کہ کے لوگوں کو ائیرکرافٹ تک دئیے جارہے ہیںاس صورتحال میں سوال تو بنتاہے کہ آخر بغیر اشتہارات کے یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ کون دے رہا ہے یہ پیسہ؟کیونکہ ایگزیکٹ کے چینل کے پاس تو ایک اشتہاربھی نہیں چل رہا، کوئی ذرائع آمدن بھی نہیں ہیں اور ہم پیمرا قوانین کے پابند ہیں ان حالات میں لائسنس نہیں دے سکتے، 2013ء میں ہی پیمرا نے سیکورٹی کلئیرنس کےلئے معاملہ وزارت داخلہ کو بھیجا دیا تھا ،25؍ مارچ 2013ءکو کلیئرنس دے دی ،اگلے دن پیمرا نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ناموں کی تبدیلی کی منظوری دے دی ،چار ماہ بعد وزارت داخلہ نے سیکورٹی کلیئرنس واپس لے لی،ہمیں پتہ نہیں کیوں کہ اس وقت نگراں حکومت تھی ہوسکتا ہےکہ جلدی میں دے دی ہوا ،2013ء میں ہی درخواست دائر کی گئی اور مئی 2015ء میں نیویارک ٹائمز میں آرٹیکل شائع ہوا ، عدالت عالیہ نے سوال کیاکہ وزارت داخلہ نے جو سیکورٹی کلیئرنس واپس لی اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی نے کوئی اعتراض کیا؟جس پر وکیل پیمرا نےکہاکہ نہیں اس میں بتایا گیا کہ قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے ،عدالت نے مزید استفسارکیاکہ آرٹیکل کس نے چھاپا؟ کونسے سے اخبار سے منسلک تھا؟ کیا ایگزیکٹ کے خلاف کسی اور اخبار میں نیوز شائع ہوئی؟ اخبار میں آرٹیکل چھپنے سے پہلے ایف آئی اے کہاں تھی؟ اگر غیر قانونی کام چل رہا تھا تو ایف آئی اے نے کارروائی کیوں نہیں کی؟کیا ایف آئی اے کو انتظامیہ کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ نیویارک ٹائمز میں صحافی ڈیکلن واش نے آرٹیکل چھاپا اور وہ ان دنوں پاکستان میں موجود تھا ،کسی اور اخبار نے ایگزیکٹ کے خلاف خبر شائع نہیں کی، دو ماہ بعد دو رکنی بنچ نے فیصلہ دے دیا ،کونسل آف کمپلین کی سفارشات پر لائسنس معطل کیا گیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سلمان طالب الدین نے بھی اپنے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ایگزیکٹ کے معاملے پرسپریم کورٹ از خود نوٹس کیس کے حوالے کچھ نئی دستاویزات پیش کرنا چاہتا ہوں، نئی دستاویزات سپریم کورٹ میں ڈی جی ایف آئی اے نے پیش کیں تھیں،نئی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ ایگزکٹ آج بھی جعلی ڈگریوں کا کاروبار کررہا ہے،ڈگریاں ملکی اور غیر ملکیوں کو فروخت کی جارہی ہیں،یو ایس میں ان کے سینئر آفیسر نے بھی اعتراف جرم کیا ،جعلی ڈگریوں کا کاروبار آئین کے آرٹیکل 9؍ اور 14؍ کی خلاف ورزی ہے،ایگزیکٹ کے چینلز کا اشتراک ہے،ایک چینل (لبیک )میں شعیب احمد شیخ کا صرف ایک شیئر ہے، دنیا بھر میں آج بھی یہی تاثر ہے کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری فروخت کررہا ہے، ضمانت پر رہائی کے بعد یہ کام دوبارہ شروع کردیا گیا ہے، سیکورٹی کلیئرنس دینے کا معاملہ کسی اور ادارے کے پاس نہیں ہے ، سیکورٹی کلیئرنس کا معاملہ ایف آئی اے کے پاس ہےاس دوران جسٹس شفیع صدیقی نے سوال کیا کہ ،سپریم کورٹ میں جن کیسز کا حوالہ دے رہے ہیں اس کے حکم نامے کی کاپی کہاں ہے ،یہ الزامات درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران کیوں پیش کیے گئے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس میں حتمی حکم نامہ جاری نہیں کیا سارا مسئلہ پیسے کا ہے، یہ لوگ بتاتے کیوں نہیںکہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ ملازمین کو کونسے سے اکاؤنٹ سے تنخواہیں جاری کی جاتی ہیں جس پر عدالت عالیہ نے کہا کہ کوئی جرم ہورہا ہے تو ایف آئی اے نے کارروائی کیوں نہیں کی ، مختلف ویب سائٹس سے اچھی اچھی تصویریں اٹھا کراپنی ویب سائٹ پر لگا دی گئیں، دنیا بھر میں بتایا جاتا ہے یونیورسٹیوں سے ان کا الحاق ہے، غیر ملکی یونیورسٹیوں کے خلاف کسی غیر ملکی ایجنسیوں نے کارروائی کی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ یونیورسٹیوں کا وجود ہی نہیں تو کارروائی کیسے کی جاتی۔
تازہ ترین