• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈسٹریز کو بجلی،گیس اور پانی کی بلاتعطل عدم فراہمی کیخلاف صنعتکاروں کا احتجاج

کراچی ( اسٹاف رپورٹر)کراچی کے صنعتکاروں نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے کہ کراچی کی صنعتوں، ایکسپورٹ، زرمبادلہ ، ملازمتوں کے مواقع اور معیشت کو تباہ ہونے سے بچائیں اور صنعتوں کو بلاتعطل یوٹیلیز اور بنیادی انفراسٹرکچر کی فراہمی یقینی بنائیں،تفصیلات کے مطابق کراچی کے تمام صنعتی علاقوں کے نمائندہ پلیٹ فارم کراچی انڈسٹریل فورم کے تحت کراچی کی صنعتوں کو بجلی، گیس اور پانی کی بلاتعطل عدم فراہمی کے خلاف پیر 23 اپریل کو کراچی پریس کلب کے سامنے پر امن احتجاج کیا گیا۔ احتجاج میں کراچی کے تمام انڈسٹریل زونز سے ایسوسی ایشنز کے صدور و نمائندگان کے علاوہ کثیر تعداد میں صنعتکاروں نے شرکت کی۔صدر سائیٹ ایسوسی ایشن محمد جاوید بلوانی کی قیادت میں ہمراہ صدر کورنگی ایسوسی ایشن طارق ملک، صدر فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن بابر خان، صدر نارتھ کراچی ایسوسی ایشن شاہد صابر، صدر سائیٹ سپر ہائی وے ایسوسی ایشن ڈاکٹر قیصر شیخ، صدر لانڈھی ایسوسی ایشن اسلام الدین ظہیر، صدر بن قاسم ایسوسی ایشن سلیم دادا اور دیگرنمائندگان و معروف صنعتکاروں نے پرامن احتجاج کے بعد نے مشترکہ پریس کانفرنس میں انڈسٹریز کوگزشتہ 26روز سے بلاتعطل یوٹیلیٹزکی فراہمی نہ ہونے اور روزانہ کی بنیادوں پر کے الیکٹرک کی طرف سے 8 تا 10گھنٹے کی بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی سپلائی میں تعطل، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی طرف سے صنعتوں کو پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ 26روز سے جاری 8 تا 10گھنٹے کی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی سپلائی صنعتوں کو نہ ہونے کی وجہ سے صنعتوں کی پیداوا ر کم ہو کر تقریباً 50فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے ۔اپنی مدد آپ کے تحت صنعتوں کو متبادل ذرائع یعنی سب سوائل پانی کی سپلائی کا انتظام بھی متاثر ہے۔ واٹر ٹینکرز کے ذریعے صنعتوں کو پانی کی سپلائی پر بھی پابندی ہے۔ حکومت کے مختلف محکموں سے بیوروکریسی کی جانب سے صنعتکاروں کو مسلسل ہراساں بھی کیا جارہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باقاعدہ پلاننگ کے تحت صنعتوں کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔کراچی کی صنعتیں جو پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹس میں تقریباً 50فیصد حصہ رکھتی ہیں، قومی خزانے کیلئے 54فیصد ٹیکس کراچی ڈائریکٹ ٹیکسس کی مد میں جنریٹ کرتا ہے، سندھ کیلئے کراچی 95فیصد ٹیکسس فراہم کرتا ہے،جبکہ کراچی کی صنعتیں2.5ملین لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرتاہے جو تاریخ کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے۔یوٹیلیٹیز کا شمار بنیادی سہولتوں میں ہوتا ہے جس کی فراہمی کی ضمانت آئین پاکستان شہریوں کودیتا ہے مگر حکومت نے صنعتکاروں کی ان بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیا ہے۔آئین پاکستان کے تحت حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ صنعتوں کو بلا تعطل بجلی، پانی او ر گیس کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ صنعتوں کا پہیہ روانی سے چلتا رہے۔پانی کے نرخ کراچی میں سب سے زیادہ 243روپے فی ہزار گیلن ہیں جبکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں پانی کے نرخ 50 تا 55روپے فی ہزار گیلن ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی ملک بھر میں اور کراچی میں ایک ہی لاگت میں کی جاتی ہے اور اس میں فریٹ شامل ہوتا ہے ۔جبکہ کراچی کی صنعتوں کو پانی کی سپلائی میں کوئی لاگت اور فریٹ چارچز نہیں آتے باوجود اس کے صنعتوں کو اضافی نرخوں پر بھی پانی فراہم نہیں کیا جاتا جس کی وجوہات حکومت ہی بہتر جانتی ہے۔کراچی میں کے الیکٹرک بجلی کی جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کی ذمہ دار ہے اور شہر کی واحد کمپنی ہونے کے باعث اجارہ داری و مناپلی قائم رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ صنعتوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ کراچی شہر میں بجلی کی جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لئے مزید کمپنیاں قائم کی جائیں تاکہ ایک مسابقت کی فضا قائم ہو اوربلاتعطل بجلی کی فراہمی مسابقتی نرخوں پردستیاب ہو سکے۔ایسوسی ایشنزکے صدور نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے سوئی سدرن گیس کمپنی کو کے الیکٹرک کو 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی کی ہدایات اور اعلان کا خیر مقدم کیا۔تاہم انھوں نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے 26دن کے بعد مداخلت کی جس دوران انڈسٹریزکو تقریباً 37ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ گیس اوربجلی کے معاملات کے حوالے سے ایس ایس جی سی اور کے الیکٹرک تمام انڈسٹریل ٹائون ایسوسی ایشن کو آن بورڈ لیں ۔ انھوں نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ سے اپیل کی کہ صنعتوں کو پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی فوری حل کریں کیونکہ گزشتہ 26 روز سے کے ڈبلیو ایس بی کی جانب سے تمام صنعتوں کو پانی کی فراہمی بھی نہیں کی جارہی ہے۔
تازہ ترین