• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام پر حملے کا ڈھونگ

جیسے ہی ایٹمی طاقتوں کے درمیان کسی فوجی تصادم کا خدشہ پیدا ہوتا ہے، تجزیہ کاروں اور مبصّرین کی ایک جماعت تیسری عالمی جنگ کا طبل بجانا شروع کر دیتی ہے اور عموماً اس مفروضے کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ چُوں کہ یہ طاقتیں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں، لہٰذا یہ غیض و غضب میں آکر اپنے حواس کھو بیٹھیں گی اور ایٹمی حملوں کا آغاز کر دیں گی، جن کی زد میں پوری دُنیا آ جائے گی۔ گو کہ اس قسم کی سنسنی خیزی مغربی میڈیا پھیلاتا ہے، لیکن چھوٹے ممالک، بالخصوص کسی بُحران سے گزرنے والے ممالک میں بھی ان تجزیوں کا ذکر عام ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 14اپریل کو امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر فضائی حملہ کیا، تو پاکستان میں بھی بعض طبقات نے امریکا اور رُوس کے درمیان تصادم کی صُورت میں تیسری عالمی جنگ چِھڑنے کا خدشہ ظاہر کیا۔ 

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شام پر ایک سو سے زاید کروز میزائل داغے اور ٹورنیڈو، رافیل اور میراج جیسے جدید طیاروں سے بم باری بھی کی۔ حملہ کرنے والے ممالک کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے شام میں اُن مقامات کو نشانہ بنایا، جہاں کیمیائی ہتھیار تیار کیے جاتے تھے، جب کہ شامی و رُوسی افواج بھی شامی شہروں پر بم باری میں مصروف ہیں۔ خیال رہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور رُوس جوہری طاقتیں ہیں اور اگر ان کے ایک دوسرے کے مقابل آ جانے پر تیسری عالمی جنگ چِھڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جائے، تو اس پر بہت زیادہ حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر عالمی جنگ کے واویلے کا بہ غور جائزہ لیا جائے، تو اس دعوے کی حقیقت سامنے آ جائے گی۔

اپریل میں امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شام پر کیے گئے مشترکہ حملے اور اس پر رُوس کی جوابی کارروائی نے بہت سے دعوئوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ حملہ آور ممالک نے شام پر حملے کا سبب دوما پر کیا گیا کیمیائی حملہ بتایا، جس میں کم و بیش ایک سو نہتّے شامی شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ان ممالک کے مطابق، دوما میں کلورین گیس یا کسی دوسرے نرو ایجنٹ کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔ تاہم، رُوس، شامی حکومت اور ایران نے ان دعوئوں کو جھوٹا قرار دیا اور کیمیائی ہتھیاروں کا کھوج لگانے والے ادارے کو جائے وقوع تک رسائی کی اجازت دینے میں تین ہفتے لگا دیے، جس پر مغربی ممالک نے شدید تحفّظات کا اظہار کیا اور بعد ازاں شام پر حملہ کر دیا۔ 

حملے کے بعد جاری کی گئی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اُن پانچ اہداف کو تباہ کر دیا گیا ہے کہ جہاں یا تو کیمیائی ہتھیار تیار کیے جا رہے تھے یاجہاں سے حملے کیے جا رہے تھے۔ حملے کے بعد امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کارروائی کام یاب رہی، جب کہ پینٹاگون، لندن اور پیرس کے فوجی ذرایع کا کہنا تھا کہ اس حملے کا مقصد صرف شام کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے محروم کرنا تھا، جس میں وہ کام یاب رہے اور اب مستقبل میں شامی حکومت کے لیے کیمیائی حملے کرنا ممکن نہیں رہا، جب کہ رُوس نے، جو ابتدا ہی سے کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی اور کیمیائی حملوں کے الزام کو مسترد کرتا آیا ہے، اس الزام کو شام پر حملے کے لیے تیار کیا گیا ’’ڈراما‘‘ قرار دیا۔

شام پر حملے کا ڈھونگ
ایک شامی خاتون بم باری سے تباہ ہونے والے اپنے گھر کے ملبے پر افسردہ بیٹھی ہیں

شام پر حملے میں استعمال کیے گئے ہتھیاروں کا جائزہ لیا جائے، تو امریکی بحری جہازوں سے سمندر سے فضا اور خشکی میں مار کرنے والے ٹوما ہاک کروز میزائل فائر کیے گئے تھے۔ ٹوما ہاک، گلوبل پوزیشننگ سسٹم کی مدد سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے اور اسے بحری جہاز اور آب دوز دونوں سے فائر کیا جاسکتا ہے۔ اس میزائل کو تیار کرنے والی کمپنی، رے تھیون کے مطابق، اس کی جدید ترین قسم ٹوما ہاک بلاک 4ہے۔ 

اس میں دو طرفہ سیٹلائٹ لنک نصب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دورانِ پرواز بھی اس کی سمت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، جو اس کی غیر معمولی خوبی ہے۔ اس میزائل کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ متحرک ہدف کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ ٹوما ہاک کروز میزائل میں ٹیرین کنٹور سافٹ ویئر نصب ہوتا ہے، جس کی مدد سے یہ زمینی نقشے اور اپنے رُوٹ کے نقشے میں مطابقت پیدا کر لیتا ہے۔ اس میزائل کی رینج 1600کلو میٹر فی گھنٹا ہے اور یہ 880میل فی گھنٹے کی رفتار سے اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ میزائل اپنی نیچی پرواز کی وجہ سے ریڈار کی زد میں نہیں آتا اور پھر تپش کا بہت کم اخراج ہونے کی وجہ سے انفرا ریڈ شعاعیں بھی اس کا پتا نہیں لگا سکتیں۔ 

ٹوما ہاک کروز میزائل تاریکی اور خراب موسم میں بھی پرواز کر سکتا ہے۔ اس میں 1350کلو گرام وزنی دھماکا خیز مواد موجود ہوتا ہے اور امریکا اسے 2ہزار سے زاید مرتبہ استعمال کر چُکا ہے۔ ٹوما ہاک کروز میزائل کی انہی خوبیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ٹرمپ نے رُوس کو خبردار کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’تیار رہو، امریکا کے اسمارٹ میزائلز آرہے ہیں۔‘‘ جب کہ رُوس اور شام نے دعویٰ کیا کہ اُس نے ان میں سے بہت سے میزائلز مار گرائے۔

یہاں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا شام میں جدید ترین ہتھیاروں سے حملہ کسی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہے؟ کیا اس کے نتیجے میں رُوس اور مغربی طاقتوں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ گیا؟ نیز، کیا اب شام میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ دِفاعی اور سفارتی ماہرین کے مطابق، ان تینوں سوالات کا جواب ایک بڑا سا ’’نہیں‘‘ ہے۔ شام پر حملے کے بعد امریکی وزیرِ دفاع، جیمز میٹس کہا کہ ’’یہ صرف وَن ٹائم ہٹ تھا۔‘‘ بعد ازاں، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ’’ اگر دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا، تو ہم پھر تیار ہیں۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ حملے کا مقصد صرف شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو تباہ کرنا تھا۔ 

اس موقعے پر برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسامے کا کہنا تھا کہ حملے کا مقصد شامی حکومت کو تبدیل کرنا یا نقصان پہنچانا نہیں تھا۔ پھر کہا گیا کہ رُوس سے تصادم سے بچنے کے لیے لتاکیہ اور طرطوس کے فوجی اڈّوں میں موجود رُوسی افواج کو حملے سے قبل ہی مطلع کر دیا گیا تھا۔ فوجی ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ نے دھمکی کے چار روز بعد حملہ کیا اور اس دوران شام، رُوس اور ایران کو اپنے ہتھیاروں اور فوجیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا موقع دیا گیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ شامی اپوزیشن نے، جو اس حملے سے مایوس ہوئی ہے، اسے ’’ملی بھگت‘‘ قرار دیا۔ گرچہ شام پر حملے سے دُنیا بَھر میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ’’واہ واہ‘‘ ہوئی، لیکن کیا اس کے نتیجے میں شام کے شہریوں کو ذرا سا بھی سکون نہیں ملا، تو کیا پھر یہ حملہ صرف ’’فَیس سیونگ‘‘ اور دُنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے کیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب دُنیا اور تُرکی نے بھی اس حملے کی حمایت کی، حالاں کہ انقرہ اور ماسکو کے درمیان روابط بہ تدریج بہتر ہو رہے ہیں۔

فوجی ماہرین کے مطابق، حملے سے قبل شام میں قائم امریکا، رُوس جنگی ہاٹ لائن پر ماسکو کو تمام معلومات فراہم کر دی گئی تھیں، تاکہ تصادم سے بچا جا سکے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس خان شیخون پر میزائل حملوں سے قبل بھی رُوس کو مطلع کر دیا گیا تھا اور اس نے حملے کے مقام سے اپنے فوجی ہٹا لیے تھے اور حالیہ حملے کے بعد خود شامی فوج کا یہ ماننا تھا کہ اُس نے رُوس کی ہدایات کی روشنی میں حملے سے قبل ہی تمام حفاظتی اقدامات کر لیے تھے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی طاقتوں نے صرف اپنے مفادات کے لیے شام پر حملہ کیا اور انہیں شامی عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ 

شام پر حملے کا ڈھونگ
اقوامِ متّحدہ میں امریکی سفیر، نکی ہیلے اپنے رُوسی ہم منصب، ویزلی نے بنزیا کے ساتھ

خیال رہے کہ اس حملے سے کچھ عرصہ قبل امریکا اور رُوس نے شام سے اپنی اپنی افواج واپس بُلانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، رُوس تو دوبارہ شامی خانہ جنگی میں پوری طرح شامل ہو چُکا ہے اور فرانسیسی صدر کا ماننا ہے کہ انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب کو بھی شام سے اپنے 2ہزار فوجیوں کو نہ نکالنے پر آمادہ کر لیا ہے، لیکن شام جیسے خوف ناک بُحران میں 2ہزار فوجیوں کی کیا وقعت ہے اور پھر گزشتہ 8برس سے اقوامِ متّحدہ شام کے مسئلے پر تماشائی بنی ہوئی ہے۔ 

اس دوران رُوس نے بشار الاسد کی حکومت بچانے کے لیے 6مرتبہ اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا اور دو بار چین نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ ویٹو کا یہ حق اس تواتر سے استعمال کیا گیا کہ برسوں سے محصور اور بُھوکے پیاسے شامی شہریوں تک خوراک اور ادویہ تک پہنچانے کا موقع نہ مل سکا اور اس موقعے پر عالمی ضمیر گہری نیند سوتا رہا۔

بشار الاسد کی افواج رُوس اور ایران کی مدد سے ایک کے بعد دوسرا شامی شہر فتح کر رہی ہیں اور اس کی پیش قدمی کو امریکا یا کوئی اور مغربی طاقت نہیں روکنا چاہتی۔ اس بارے میں واشنگٹن کے ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکا کو شام سے کوئی دِل چسپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شامی مسلمانوں کو بچانے کے لیے کوئی مُلک آگے نہیں آتا۔ سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوران کم و بیش 70لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آئے تھے، جب کہ اس وقت ایک کروڑ 20لاکھ شامی باشندے اپنی مُلک کی سرحدوں پر اور دوسرے ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ 

امریکا اور مغربی طاقتوں کے دکھاوے کے حملے نہ تو شام میں امن قائم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی شامی حکومت اور اس کے حلیفوں کی پیش قدمی روک سکتے ہیں، بلکہ ان کے نتیجے میں شامی شہریوں اور اپوزیشن کے ارادے مزید کم زور پڑ رہے ہیں اور ان کو پے در پے شکست سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتیرس نے بجا طور پر یہ کہا کہ شامی مسئلے کا حل حملے نہیں، بلکہ جنگ بندی، مذاکرات اور عوام کی مرضی کی حکومت میں پوشیدہ ہے۔ تاہم، فی الحال اس سے نہ تو امریکا اور اس کے حلیفوں کو کوئی دِل چسپی ہے، نہ ہی رُوس و ایران اس پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اسلامی ممالک میں اتنا دَم خم ہے کہ وہ خود کوئی قدم اُٹھا سکیں۔

اب اگر اس قسم کے حملوں کے پیشِ نظر کوئی تیسری عالمی جنگ کا خدشہ ظاہر کرے، تو اُسے بین الاقوامی اُمور اور فوجی حکمتِ عملی سے نابلد ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رُوس اور مغربی طاقتوں کے درمیان ایک کشمکش پائی جاتی ہے اور گرچہ پیوٹن سوویت یونین کی عظمتِ رفتہ بحال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن وہ امریکا اور یورپی ممالک سے فوجی تصادم پر بالکل بھی آمادہ نہیں۔ یاد رہے کہ جب مغربی طاقتوں نے سوویت یونین کے حصّے بخرے کر کے دُنیا بَھر سے کمیونزم کو لپیٹ دیا تھا، تو اُس وقت بھی سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار سوویت یونین کے پاس تھے اور اس کی فوج بھی جدید ہتھیاروں سے لیس تھی، لیکن کوئی ہتھیار کام نہ آیا اور سوویت یونین بکھر گیا۔ 

گرچہ کریمیا پر قبضے کے بعد لگنے والی اقتصادی پابندیوں نے رُوس کو بے حال کر دیا ہے، لیکن ماسکو یہ سب اس لیے برداشت کر رہا ہے کہ وہ یورپ سے جُڑا ہوا ہے اور نصف یورپ کو گیس فراہم کر کے زرِ مبادلہ کماتا ہے اور ایسے میں رُوس کی جانب سے ہتھیاروں کا استعمال دونوں کی تباہی کا باعث ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ رُوس اور مغرب دونوں ہی کو جُھکنے میں کوئی عار نہیں اور وہ دُنیا ہی میں بنائی گئی اپنی جنّت کو تباہ کرنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ 

طاقت کے توازن میں تبدیلی اُن کے لیے معمول بن چُکی ہے اور وہ سلامتی کائونسل اور میڈیا کی حد تک ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مشرقی ایشیا میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ یعنی شمالی کوریا ایٹمی تجربات کرتا رہا، ٹرمپ اُسے ہول ناک نتائج کی دھمکیاں دیتے رہے اور چین صبر کی تلقین کرتا رہا۔ 

اب مئی میں امن مذاکرات ہوں گےاور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ اسی طرح چین اور جاپان کے مابین بھی شدید کشمکش پائی جاتی ہے، لیکن یہ دونوں ایک حد سے آگے نہیں بڑھتے، جب کہ فوجی تصادم کا تو تصّور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ سو، تیسری عالمی جنگ کے خواب دیکھنے والوں کو آرام سے سو جانا چاہیے۔

تیسری عالمی جنگ وقوع پزیر ہو یا نہ ہو، لیکن اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز، شام کھنڈر بن چُکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے اور اسلامی دُنیا میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ مذاکرات کے ذریعے ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی بہ جائے جنگ و جدل میں مصروف ہے اور اس کے پاس اپنے باہمی اختلافات ختم کرنے کا کوئی پُر امن حل موجود نہیں۔ 

یوں تو سبھی اسلامی ممالک اُمّتِ مسلمہ سے اپنی درد مندی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اپنے گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنے پر آمادہ نہیں۔ مَرنے مارنے اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے ہی کو ’’فتح‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور جَشن منایا جاتا ہے۔ جب کوئی راستہ نہیں سوجھتا، تو اغیار کو کوستے ہیں، لیکن خود غور و فکر پر آمادہ نہیں۔ اگر اسلامی ممالک کے رہنما صرف عالمی طاقتوں کے اندازِ سیاست اور سفارت کاری ہی پر غور کریں، تو وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے اختلافات میں ’’ریڈ لائنز‘‘ کراس کرنے کی بہ جائے اپنے عوام کی خوش حالی کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔

تازہ ترین