• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی کا اغواء کراچی سے، تاوان کی وصولی اور حوالگی افغانستان میں


کراچی سے شہریوں کے اغوا اور افغانستان سے تاوان کی وصولی کیلئے فون کالز پر تو تحقیقات جاری ہی ہیں ، اب سرحدوں پر چیک پوسٹ کے قیام سے جرائم پیشہ افراد پاکستان میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں اور تاوان کی وصولی اور مغویوں کی حوالگی بھی افغانستان میں ہی کرنے لگے ہیں۔

پاکستانی شہریوں کا اغواء کراچی سے، تاوان کی وصولی اور حوالگی افغانستان میں

کراچی سے اغواء 11 سالہ بچے کو اس کے والد نے ایک کروڑ پانچ روپے تاوان دے کر افغانستان کے سرحدی شہر بیش منڈی سے بازیاب کرایا۔

پولیس حکام کے مطابق ریکارڈ پر آنے والا کراچی کا یہ پہلا کیس ہے جس میں مغوی کو افغانستان میں تاوان دے کر بازیاب کرایا گیا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تاجر خیر محمد اچکزئی کے 11 سالہ بیٹے محمد سرور کو 13 جنوری 2016 کی شام سائٹ رشید آباد سے اغواء کیا گیا تھا۔ حاجی خیر محمد کے مطابق بچہ گھریلو سامان لینے کیلئے دکان پر گیا تھا کہ واپس نہیں آیا۔ اہل خانہ کی تلاش کے باوجود سرور نہیں ملا تو خطرہ بھانپ کر سائٹ تھانے بی ایریا تھانے میں درج کرایا۔

پاکستانی شہریوں کا اغواء کراچی سے، تاوان کی وصولی اور حوالگی افغانستان میں

ایف آئی آر نمبر 16 حاجی خیر محمد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 اے، 506 بی، 34 25 ٹیلیگراف ایکٹ کے تحت درج کی گئی۔ خیر محمد کے مطابق اس دوران 20 جنوری کی سہ پہر 3 بج کر 49 منٹ پر افغانستان کے فون نمبر 0093708049681 سے کال کی گئی جس میں ملزمان نے بچے کے اغواء اور اپنے پاس موجودگی ظاہر کرتے ہوئے رہائی کیلئے 10 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد انہیں ایک پاکستانی موبائل نمبر سے کال کی گئی جس میں بچے کو چھڑانے کیلئے فیصل آباد اور ملتان بھی بلوایا گیا۔

اس کے بعد انہیں مردان آنے کا کہا گیا۔ پھر ایک بار انہیں مسقط سے بھی فون کال کی گئی جس میں بچے کی رہائی کیلئے تاوان دینے کے لئے دباو ڈالا گیا۔ خیر محمد کے مطابق وہ پولیس کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتے رہے لیکن پولیس نے تعاون نہیں کیا۔

پاکستانی شہریوں کا اغواء کراچی سے، تاوان کی وصولی اور حوالگی افغانستان میں

 مدعی کے مطابق انہوں نے اپنے خاندانی ذرائع استعمال کئے اور ملزمان سے معاملات طے کرتے رہے۔ آخر کار رواں سال تین مارچ کو وہ طے شدہ رقم کا بندوبست کرکے بلوچستان میں پاک افغان بارڈر چمن پہچنے اور اینٹی وائلنٹ کرائم سیل میں مقدمے کے تفتیشی افسر اور پولیس ٹیم کو بھی ساتھ لے گئے۔

چمن میں لیویز حکام کو بھی صورتحال سے آگاہ کیا۔ حاجی خیر محمد کے مطابق ملزمان کو ایک کروڑ روپے تاوان دینے کا معاملہ طے ہوا تھا اور ادائیگی اور بچے کی حوالگی بھی افغانستان کی حدود میں کرنا تھی۔ جس کیلئے وہ پاک افغان چمن بارڈر سے اکیلے ہی افغانستان میں داخل ہوئے۔

انہوں نے ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے کی رقم دو سیاہ شاپنگ بیگ میں ڈالی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ملزمان انہیں مانیٹر کررہے تھے۔ خیر محمد کے مطابق انہوں نے افغانستان کے سرحدی شہر بیش منڈی میں داخل ہوکر افغانی موبائل فون سم خریدی جس سے ملزمان کو فون کرکے اپنی آمد کا آگاہ کیا اور اپنی موجودگی کے مقام کے بارے میں بتایا۔

خیر محمد کے مطابق تھوڑی دیر میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار افراد آئے جو ان سے رقم کے دونوں تھیلے جھپٹ کر لے گئے، تھوڑی دیر بعد ایک اور موٹرسائیکل پر سوار شخص ان کے بچے کو بیس قدم کے فاصلے پر ان کے سامنے چھوڑ کر چلا گیا۔ دو سال کی دوری کے بعد وہ بچے سے لپٹ لپٹ کر روتے رہے اور پھر بارڈر  کی طرف واپس آگئے۔ جہاں اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس اور لیویز حکام ان کا انتظار کررہے تھے۔

خیر محمد کے مطابق وہ لیویز کے دفاتر پہنچے جہاں مجسٹریٹ کے سامنے بچے کو پیش کیا گیا اور پھر اس کی پولیس کو حوالگی ہوئی۔ جس کے بعد بچے کو کراچی کی متعلقہ عدالت میں پیش کرکے ان کے حوالے کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں اب تک کئی ملزمان کو گرفتار کرا چکے ہیں۔ مقدمہ زیر سماعت ہے اور ملزمان انہیں رہائی کیلئے ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

تازہ ترین