• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر جابندارانہ لاتعلقی یا جانبدارانہ تعلق کی پیچیدہ نفسیات کا شکار ہونے یا نہ ہونے سے پہلے، اوائل عمری ہی میں سپر اسٹار گلوکار علی ظفر اور میشا شفیع کے تنازعے پر گفتگو کا علی کے قانونی نوٹس سے آغاز کرتے ہیں۔
اخبارات کی زبان میں:’’گلوکار علی ظفر نے شہرت کو نقصان پہنچانے پر گلوکارہ میشا شفیع کو 10کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ نوٹس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میشا شفیع نے بے بنیاد الزامات عائد کئے جس سے گلوکار کی شہرت کو نقصان پہنچا۔ میشا شفیع نے میڈیا پر ہراساں کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ علی ظفر کے وکلاء نے دو ہفتے کے اندر میڈیا پر معافی مانگنے کا یا پھر 10کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا قانونی نوٹس بھیجا ہے۔ دوسری جانب میشا شفیع کے وکیل محمد احمد پنسونہ نے کہا ہے کہ انہیں علی ظفر کی جانب سے کوئی قانونی نوٹس موصول نہیں ہوا، یاد رہے کچھ روز قبل میشا شفیع نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں علی ظفر پر ایک سے زائد مرتبہ جنسی ہراساں کئے جانے کا الزام عائد کیا تھا‘‘۔
ہتک عزت کے اس قانونی نوٹس کی دونوں جانب سے کس حد تک پیروی کی جاتی ہے اس کی پیش گوئی ممکن نہیں، روایت زیادہ تر ایسے معاملات کو راستے میں ادھورا چھوڑنے کی ہی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے البتہ ایک سے زائد مثالیں ’’ہتک عزت کے نوٹس ‘‘ کے پائیدار تاریخی مقام کی بھی تصدیق کرتی ہیں۔
پہلی مثال، جب مولانا کوثر نیازی مرحوم نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے پس منظر میں برطانیہ میں کسی پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کیا تھا، دوسری مثال، جب عمران خان نے بطور کرکٹر اس دور کے ’’سلطان راہی کرکٹر‘‘ ایان بوتھم کو ایسا ہی نوٹس بھیجا تھا، کوثر صاحب مرحوم اور عمران خان دونوں نے اپنی جانب سے دائر کردہ ہتک عزت کے مقدمات کی ’’ٹھوک‘‘ کر پیروی کی، نہ صرف الزام لگانے والے تاریخی رسوائی سے دوچار ہوئے الٹا ضرب شدید قسم کا مالی جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا۔ ہتک عزت کے مقدمات کا المیہ انہیں راستے میں چھوڑ دینا ہے، اب آپ علی ظفر اور میشا شفیع کا تنازعہ ہی سامنے رکھیں، جو سچا ہے اس کو کس شے کی آنچ کا ڈر ہے، وہ ڈٹ کر اپنا کیس جاری رکھے، جو جھوٹا ہو گا دنیا اس کی پیشانی پر ’’جھوٹ‘‘ کے الفاظ خود ہی پڑھ اور دیکھ بھی لے گی۔
میشا شفیع کی پہل نے البتہ علی ظفر کو میڈیا ٹرائل کے انسانیت کش رویے کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔
غالباً ایسا ہی کوئی غبار ہے جس نے علی اور میشا کے موضوع پر پاکستان کے معتبر ترین کالم نگاروں میں سے ایک برادر عطاء الحق قاسمی کو میڈیا ٹرائل کے ہاتھوں ’’انسانیت کشی‘‘ کی اس روایت کے بارے میں ایک مثال کے ذریعے اعتراف کرنا پڑا، عطا کا کہنا ہے ’’اس طرح کا معاملہ سامنے آنے پر اس وقت تک اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا جائے اور نہ اسے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائن بنایا جائے جب تک ہراسانی کی کمیٹی کسی فیصلے تک نہیں پہنچتی، اس کی ایک مثال میرے سامنے ہے، ہماری جنگ آزادی کے مجاہد آغا شورش کاشمیری کے صاحبزادے مسعود شورش پر اس نوع کا الزام لگا اور اس کے ساتھ ہی ان کی کردار کشی شروع ہو گئی مگر جب تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی تو انہیں مکمل طور پر بے قصور قرار دیا گیا مگر جو بدنامی ہونا تھی وہ تو ہو گئی‘‘۔
بلاشبہ میشا شفیع برصغیر اور پاکستان کے جانباز اور جاں نثار ترقی پسند قلمکار حمید اختر کی نواسی اور صبا حمید کی صاحبزادی ہیں، ان کے والد کی خدمات اور ان کی والدہ کے وقار سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ بعینہٖ علی ظفر کے والد پنجاب یونیورسٹی کے گراں مایہ اساتذہ میں سے ہیں اور ان کی والدہ محترمہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک بلند مرتبہ اکیڈمک عہدے پر فائز شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ چنانچہ برخوردار اور برخورداری کے مابین خاندانی تقابل کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں، نہ وہ آوارہ شہر خاندان سے ہے نہ وہ آوارہ شہر خاندان کا نور نظر ہے، بنیادی سوال انسانیت کی عدالت میں مقدمے کے تعین کا ہے؟
بصورت دیگر تو علی ظفر کے بارے میں ہمارے ایک بہت ہی مصدقہ قلمکار نے اپنا ردعمل ان الفاظ میں دیا ہے، وہ لکھتے ہیں۔ ’’لیکن اس اچھے خاندانی پس منظر( قلمکار کی مراد میشا شفیع کے خاندان سے ہے) کو بیان کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میشا کو کسی کی عزت کے قتل کا لائسنس دے دیا جائے، زیادہ تر لوگوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ بات کچھ اور تھی، اس کے علی ظفر پر الزام نے از خود کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں اور ان سوالات کا جواب میشا کو دینا ہو گا، ہر وقت شوبز کی لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھرے رہنے والے علی ظفر نے اسے اس وقت جنسی ہراسمنٹ کا شکار کیوں کیا جب کہ اس کی جوانی ڈھل چکی تھی، وہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھی اور جب وہ خود ایک با اختیار اور طاقتور عورت تھی، اس نے یہ بات اسی دن اپنے شوہر کو بتا دی تو وہ کیوں خاموش رہے، اب اس راز کو افشا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اس نے یہ بات اپنے فرینڈز کو بھی بتائی اور انہوں نے بھی خاموشی اختیار کئے رکھی اور وہ خود بھی علی ظفر کے ساتھ کام کرتی رہی‘‘۔
پاکستان کے سینئر ترین سیاسی و سماجی تجزیہ کار جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے بھی کچھ اس قسم کے مفہوم کو اجاگر کیا، ان کے مطابق ’’میشا شفیع اور علی ظفر کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے ساتھیوں نے میشا کے الزامات کی تائید میں ایک لفظ نہیں کہا‘‘ ’’تو بنیادی سوال انسانیت کی عدالت میں مقدمے کے تعین کا ہے۔
انسانیت کی عدالت میں مقدمے کے تعین کی شروعات دنیا اور برصغیر کی تاریخ میں عورت کی غلامی، بے بسی، مظلومیت اور ویرانی کے ساتھ ساتھ ’’ہزار مجرم بے شک بچ جائیں مگر کسی ’’بے گناہ‘‘ سے ’’بے انصافی‘‘ نہیں ہونی چاہئے۔
بلاشبہ پاکستان میں عورتوں نے عظیم جدوجہد کی، بلاشبہ گھروں، دفتروں اور بازاروں میں پاکستانی عورت شدید ترین دبائو اور بے انصافی (بہ حیثیت مجموعی) کا شکار رہتی ہے، پھر بھی آج وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ ہی نہیں اپنے حقوق کی خاطر میدان عمل کی نہایت فیصلہ کن جنگجو ہے، یہ وہ جنگ ہے جس میں پاکستان کے ہر انسان دوست فرد نے اس کا ساتھ ہی نہیں دیا، سینکڑوں نے اس ’’جہاد‘‘ میں خواتین کے لئے مصائب بھی برداشت کئے ہیں، لیکن مظلومیت اور غلامی کے انسداد کی اس جنگ میں انسانیت کی عدالت میں مقدمے کا تعین ’’عدل‘‘ کے عدیم المثال ’’قیام‘‘ سے ہے، جہاں کوئی میشا کسی علی ظفر کو اور کوئی علی ظفر کسی میشا کو تختہ مشق بنا کر ایک دوسرے کے لواحقین کو ذہنی خواری اور صدمے کی آگ کا ایندھن نہ بنا سکے، یہ تعین کب ہو گا، اس وقت جب۔۔۔۔
کسی عورت کا ہر مرحلے پر سچا اور مظلوم ہونے اور کسی مرد کا ہر مرحلے پر جھوٹا اور ظالم ہونے کی "Me Too"جیسی بین الاقوامی مبالغہ آرائی کے بجائے ریاستی اور سماجی قوانین کی روشنی میں ’’عدل‘‘ کا قیام‘‘ عمل میں لایا جائے گا۔ ـ"Me Too"جیسی سماجی ثقافت حقوق کے حصول کا وہ سفاکانہ اور نفس پرستانہ راستہ ہے جس میں تقریباً ہمیشہ دوسروں کے حقوق الٹی چھری سے ذبح کر دیئے جاتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین