• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیچھے سے آنے والی سخت آواز بھاگو نے میری کمر میں سنسنی دوڑادی آواز سنتے ہی میں بھاگنے لگا، میں اس وقت سرحدی علاقے سے بارڈر کراس کرنے کی کوشش میں تھا جہاں ایک نامعلوم گولی سے میری جان بھی جاسکتی تھی لیکن میرے اندر ملک اور قوم کے لیے کچھ کرجانے کا ایسا جذبہ موجود تھا جس نے میری ہمت کو بہت بڑھا دیا تھا، میں نے اپنا حلیہ بھی تبدیل کررکھا تھا۔ کرتا پاجامہ اور سر پر پنجابی پگ جیسی چادر لپیٹے پیروں میں مضبوط چپل اور جیب میں پڑوسی ملک کی کرنسی میں چند سو روپے لیے رات دو بجے میں پنجاب کے سرحدی علاقے راجن پور سے پڑوسی ملک کا بارڈر کراس کرنے کی کوشش میں مصروف تھا، مجھے پانچ سے دس کلومیٹر بغیر رکے بھاگنے کا حکم ملا تھا جس کے بعد زندگی محفوظ تھی۔ میں پہلی بار بارڈر پار نہیں کررہا تھا پہلے بھی کئی دفعہ ایسا کرچکا تھا لہٰذا گھنٹے بھر میں، اس مقام پر موجود تھا جہاں ایک مقامی شخص نے مجھے مزید آگے لے کر جانا تھا۔ کچھ دیر بعد مقامی رابطہ کار مجھ تک پہنچ گیا، یہاں سے مزید دو گھنٹے تک ہمیں پیدل چلنا تھا میں خاموشی سے اپنے گائیڈ کے پیچھے چلتا رہا اب صبح ہوگئی تھی اور ہم ایک گائوں میں پہنچ چکے تھے زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شروع ہوچکی تھی۔ گائوں کے مندر سے گھنٹہ بجنے کی آواز بھی آرہی تھی جس سے لگ رہا تھا کہ مندر میں عبادت جاری ہے، گائوں کے کسی فرد نے مجھ پر توجہ نہیں دی کیونکہ میں خود ایک مقامی شخص لگ رہا تھا یہاں ہم نے ایک ہوٹل میں چائے پی اور بس اڈے پر آگئے جہاں سے ترنگ پور جانے والی بس میں سوار ہوکر چل پڑے۔ تین گھنٹے بعد گائیڈ نے مجھے اترنے کا اشارہ کیا اور خود بس میں بیٹھ کر آگے نکل گیا یہاں سے مجھے اپنا مشن اسٹارٹ کرنا تھا اپنے بل بوتے پر اپنے ملک کے لیے کرنا تھا جس کے لیے میں پوری طرح تیار تھا، ترنگ پور ایک چھوٹا سا شہر تھا یہاں پہلے سے موجود ایک رابطہ کار کے پاس جانا تھا۔ میں ڈھونڈ تے ڈھونڈتے شہر کے ایک معروف فوٹو اسٹوڈیو تک پہنچا اسٹوڈیو مالک کا نام سری چند تھا میں نے اسے بتایا کہ میں سرحدی گائوں سندر نگر کا رہائشی ہوں اور بخشی جی نے آپ کا بتایا تھا کہ آپ یہاں میری رہائش اور نوکری کا بندوبست کردیں گے۔ سری چند مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اس نے نہ صرف میری آئو بھگت کی بلکہ فوری طور پر مجھے کرائے پر کمرہ بھی لے کر دیا اور کچھ نقد رقم بھی دی اور اگلے دن آنے کو کہا ۔ میں ترنگ پور میں اپنی رہائش گاہ پہنچا۔ نہا دھو کر سونا چاہتا تھا، کافی تھک چکا تھا، میں یہاں ایک اہم شخص کو اپنے ساتھ لیکر جانے کے لیے آیا تھا یہ شخص کون تھا اس کے بارے میں مجھے صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ یہ میرے ملک کا دشمن تھا، کئی برس ہمارے ملک میں مقامی شہری بن کر رہا، کئی اہم راز چرا کر اپنے ملک جاچکا تھا اور اب ہمیں اسے واپس لے کر آنا تھا جس کے لیے مجھے ایک دیہاتی بن کر اس کے ہاں ملازمت کرنا تھی اور اسے کسی بھی طرح واپس لانا تھا اس کام کے لیے مجھے تھوڑی بہت مقامی سپورٹ بھی حاصل تھی اس روز میں نے خاصی دیر آرام کیا اور اگلے دن دوبارہ سری چند کے پاس پہنچا، سری چند نے ہی میری شکل دیکھ کر میرا نام بھولے ناتھ رکھ دیا تھا۔ میں سری چند کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر رنجیت سنگھ کے ہاں پہنچ گیا۔ شہر میں ایک کنال کے رقبے پر محیط خوبصورت گھر تھا۔ سری چند مجھے باہر کھڑا کرکے اندر گیا اور کچھ ہی دیر میں مجھے بھی اندر بلوالیا۔ اب میں رنجیت سنگھ کے سامنے موجود تھا، اس نے خونخوار نگاہوں سے میرا جائزہ لیا، مجھ سے میرے علاقے، خاندان کے بارے میں معلوم کیا۔ وہ پوری طرح مجھے ٹٹول رہا تھا اور میں اس کی تمام باتوں کا معصومیت سے جواب دیکر اپنے آپ کو ایک پکا دیہاتی ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا کافی دیر بعد وہ مطمئن ہوگیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ کس سے بات چیت کررہا ہے، کافی دیر بعد وہ بولا تم تو لمبے تڑنگے آدمی ہو پہلوانی کرتے رہے ہو، میں نے کہا جی جناب دو چار کو ویسے ہی پھڑکا دوں، رنجیت مسکرایا بولا مجھے ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے، تم نے یہاں میرے گھر کی دیکھ بھال کرنی ہے گھر کے اور باہر کے کام کرنا ہونگے، کسی اجنبی کو گھر میں داخل نہیں ہونے دینا ہے، بچوں کا خیال رکھنا ہے، میں اکثر کئی کئی مہینے باہر رہتا ہوں، گھر والوں کا خیال رکھنا ہوگا اور کوئی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ اگلے ایک سال میں نے رنجیت اور اس کے گھر والوں کی بھولے ناتھ بن کر اتنی خدمت کی کہ میں اپنے آپ کو خود بھی ایک نوکر ہی تصور کرنے لگا لیکن میرا مشن مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کررہا تھا اس دوران میں باقاعدگی سے اپنے بتائے گائوں میں خط بھیجا کرتا تھا اور ہندی زبان میں مجھے جواب بھی موصول ہوا کرتے تھے اس خط و کتابت کا انتظام بھی میرے ادارے نے کر رکھا تھا اور پھر ایک دن میں نے اپنی شادی کا اعلان کردیا اور رنجیت کے سب گھروالوں کو شاد ی میں آنے کی دعوت دی رنجیت سنگھ کے والد والدہ اور بیوی بچے میرے اتنے گرویدہ تھے کہ سب آنے کو تیار تھا جبکہ میں صرف رنجیت کو بلانا چاہتا تھا لہٰذا کچھ ایسا چکر چلایا کہ رنجیت اپنے گھر والوں کی بات نہ ٹال سکا اور وہ بھی میری شادی میں آنے کو تیار ہوگیا، رنجیت اور اس کے اہل خانہ بارڈر پاس موجود میرے گائوں سے آنے والے خطوط سے بہت مطمئن تھے پھر ایک روز ہم سب رنجیت کے ساتھ ہی گاڑی میں سرحدی گائوں سندر نگر کے لیے روانہ ہوئے، لیکن سندر نگر میں نہ تو میرا گھر تھا اور نہ ہی گھر والے لیکن مجھے اپنے ادارے کی جانب سے رنجیت سنگھ کو سندر نگر سے پہلے موجود گائوں بھگوان پورہ تک لانے کا کہا گیا تھا لہٰذا میں سب کو لیکر بھگوان پورہ تک پہنچا اور رات گزارنے کے لیے ایک رابطہ کار نے گھر کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ سب نے پیٹ بھر کربے ہوشی والا کھانا کھایا جبکہ میں نے کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور پھر سب سو گئے تو میں نے اپنا کام شروع کیا اور اپنے رابطہ کار جو پہلے سے وہاں موجود تھے ان کی مدد سے رنجیت سنگھ کو لیکر رات کے اندھیرے میں بارڈر کا سفر شروع کیا اور پر خطر راستوں سے ہوتے ہوئے صبح ہونے سے قبل اپنوں میں موجود تھا، رنجیت کئی سال تک ہمارا مہمان رہا، مجھے بھی بہت شاباش ملی۔ میں ملک کے راز چوری کرنے والے کو واپس لانے پر خوش تھا۔ میرے سامنے موجود ستر سالہ قمر الاصف سن ارسٹھ کے دنوں کی اپنی زندگی کی اہم کار گزاری سنارہے تھے جن کو ریٹائرڈ ہوئے اڑتالیس برس گزر چکے تھے، جس کے بعد وہ ایک جاپانی کمپنی میں بطور فورمین ملازم ہوئے جاپانیوں سے خوب جاپانی سیکھی اور پچیس برس قبل ہمیں بھی سکھائی، اب وہ ستر برس کے ہوچکے ہیں کمزور ہیں، دل کے مریض ہیں، شوگر بھی تنگ کرتی ہے لیکن آج تک ہمیں کبھی اپنی زندگی کے راز نہ بتائے لیکن جب ان کو اجیت دوول کے بارے میں بتایا گیا کہ مشیر قومی سلامتی ہونے کے باوجود لاہور میں بطور جاسوس اپنی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو فخر سے بتاتا ہے تو قمر الاصف نے بھی زندگی کے ان گنت رازوں میں سے ایک پر سے پردہ اٹھایا، لیکن پچاس سال بعد۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین