• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں مذہبی انتہاپسند بیانئے کا ذکر کرنے کی جسارت کی تھی۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک قومی و جمہوری اور روشن خیال بیانیے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں ہم اس کے چیدہ چیدہ نکات پیش کریں گے۔
1۔ قبل از تقسیم ہند، مسلمانوں کی تحریک بنیادی طور پر اقلیتی حقوق کیلئے تھی اور ”دو قومی نظریہ“ اُسی کا مظہر تھا۔ پاکستان 1940 کی قرار دادِ لاہور کی روشنی میں مسلم اکثریتی علاقوں میں قائم ہوا، برصغیر کے تمام مسلمانوں کیلئے نہیں۔ پاکستان میں بسنے والی قومیتوں اور لوگوں کی اپنی تاریخ اور منفرد ثقافتی جڑیں ہیں۔ مسلم اکثریتی مملکت کے باوجود اس کی ایک مضبوط علاقائی (Territorial) بنیاد ہے جو کثیر الاقومیتی ورثوں کے رضاکارانہ اختلاط سے پاکستانی قوم کی تشکیل کرتی ہے۔ نظریہ اتنا ہی فیصلہ کن ہوتا تو مشرقی پاکستان کیوں علیحدہ ہوتا؟ یا پھر بھارت کے سارے مسلمان کیوں نہ ہجرت کرتے؟ قومی ریاست مذہبی جمعیتوں سے ماورا ہے۔ متفرق لوگوں کا سماجی و نسلی ارتقا خاندان سے قبیلوں اور قبیلوں سے قومیتوں اور اُن کے اجتماع سے قوم میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اسی طرح ریاست کا ارتقا بھی مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ ریاست قدیم سے جاگیردارانہ اور پھر آج کی جدید قومی ریاست تک یہ مختلف مرحلوں سے گزرتی ہے۔ یہ ایک سیاسی و قانونی تنظیم ہے اور جو شہریوں کی منشا سے ایک عمرانی معاہدے سے وجود میں آتی ہے۔ جس کا شہریوں کے مذاہب سے تعلق نہیں۔ حالانکہ ریاست کو تشکیل دینے والے لوگ مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کے حامل بھی ہوتے ہیں۔2۔ سیاسی طور پر اسلام کے مقدس نام کو بطور نظریاتی ڈھال کے محروم قومیتوں اور مظلوم لوگوں کے استحصال اور قومی اکائیوں کو دبانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اسلام اور ”قومی زبان“ کے نام پر مقامی لوگوں کی زبانوں، ثقافتوں اور حقوق کو پامال کیا گیا۔ اسلامی نظریہ یا نظریۂ پاکستان یا پھر قبل از تقسیمِ ہند دو قومی نظریہ کی آڑ میں ریاست کی تعمیر سے قومی یکجہتی پیدا ہونے کی بجائے منتشر ہوتی گئی، پاکستان دو لخت ہوا اور اب مذہبی فرقہ واریت کے فروغ سے مذہبی بنیاد پر قومی ریاست کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں رہی۔ مسلم و غیرمسلم اقلیتوں کو تحقیر و تفریق کا نشانہ بنا کر قومی تعمیر نہیں ہو سکتی، قومی انتشار پیدا ہوتا ہے۔3۔ پاکستان کی قومی ریاست، وفاقی اکائیوں کے اتحاد کی بنیاد پر ایک جمہوریہ ہو جہاں سب شہری بلا رنگ و نسل و جنس اور مذہب یکساں حقوق کے حامل ہوں۔ جمہوریت، وفاقیت، آئین و قانون کی حکمرانی اور جدید نظامِ حکومت جس میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور عوام کی اعلیٰ حاکمیت منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لائی جائے۔ جمہوری ریاست کا تصور پاپائیت سے متصادم ہے اور علمائے کرام کو حقِ ربانی عطا نہیں کرتا، ویسے بھی اسلام میں پاپائیت کا تصور نہیں۔ اور مذہب و عقیدے کا معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے، جن کا ریاست اور اس کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔4۔ انسانی راحت، آرٹس، موسیقی، فنونِ لطیفہ، ثقافتی ورثے، حقِ تخلیق و تحقیق، حقِ اظہار، انسانی حقوق کا آفاقی اعلان نامہ، جدیدیت، عقلیت، محبت، پیار، انسانیت دوستی، ہر عقیدےکے ماننے والوں کا اپنے عقیدے پر رہنے کا بلاریاستی مداخلت حق، ذوقِ جمال و آرائش، عالمی دُنیا کی ایجادات اور ترقی سے استفادہ، سائنسی و عمرانی علوم کا فروغ، خاندانی منصوبہ بندی، خواتین کی آزادی اور پدرشاہی مظالم کا خاتمہ، قانون کی حکمرانی، سب شہریوں کیلئے بلاتفریق رنگ و نسل و عقیدہ اور جنس ریاست و معاشرے کی نظر میں مساوی سلوک، نجی زندگی کی پردہ داری، جمہوری اقدار جہاں اقلیت کو بھی وہی حقوق ہوں جو اکثریت کو حاصل ہوتے ہیں۔ سماجی و اخلاقی اقدار، زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ ’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘5۔ بلاتمیز مذہب و عقیدہ، سب انسان برابر اور لائقِ عزت ہیں۔ مذہبی بنیاد پر تفریق غیرمنصفانہ ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں اچھے لوگ بھی ہیں اور بُرے بھی۔ کسی بھی مذہب کو ماننے والا دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا ازلی دشمن نہیں۔ انسان ہونے کے ناطے سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ مسلمانوں کا رب، رب العالمین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں۔ مذہب یا مسلک کی بنیاد پر تفریق، قتل مقاتلہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ اور ریاست و قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جہاں ایسے روا رکھا جائے گا، وہاں جنگل کا قانون تو ہوگا، انسانی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔6۔ یقینا نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی ادوار میں مشرق، جہاں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں، مغرب کے زیرِ نگیں رہے جو بربریت و استحصال سے عبارت ہے۔ لیکن یہ بنیادی حقیقت اپنی جگہ ہے کہ مسلم دُنیا نے کئی صدیوں سے علم و تحقیق، فکری جستجو اور تخلیق و ایجاد کو خیرباد کئے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ عقلیت کا دور جو مشرق سے شروع ہو کر مغرب میں جا بسا، مسلم دُنیا اس سے صدیوں دُور ہے۔ مسلم دُنیا کے 56 ممالک،چند استثناؤں کو چھوڑ کر، دُنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہیں۔
جہاں صنعت ہے نہ ٹیکنالوجی۔ سماجی و مادی، سائنسی علوم ہیں نہ فنونِ لطیفہ۔ جہاں یا تو بادشاہتیں ہیں یا پھر مختلف النوع آمریتیں، جہالت، پسماندگی، غربت اور دقیانوسیت اور توہمات کا چلن ہے۔ مستقبل کی جانب زقند لینے کی بجائے، مسلم دُنیا ماضی میں مراجعت کرنے پر مصر ہے۔ اور خود مسلمان علماءاور مسلم ممالک کے حکمران طبقے اس کے ذمہ دار ہیں۔7۔ ہر انسان ایک خاص وقت اور مقام پر کسی معاشرے و ثقافتی ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، قبیلہ، طبقہ، قوم اور مملکت کا فرد ہے، جس کی اپنی منفرد ثقافت، زبان، رہن سہن، رسم و رواج اور تاریخی حیثیت ہے۔ ہر معاشرے میں ہر طرح کے خیالات، نظریات اور مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ برصغیر ہندوپاک کی اپنی تاریخ ہے جو ہماری اپنی تاریخ و ثقافت ہے۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب ہی ہمارا ورثہ ہے نہ کہ کوئی ترک، افغان یا عرب ثقافت۔ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح مسلمان بھی برصغیر، جہاں وہ رہتے ہیں اِسی خطے کی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں، جس سے اجنبیت مسلمانوں کیلئے شرطِ ایمان نہیں۔ بلکہ اپنی ثقافت و تاریخ سے اجنبیت سے مسلمانوں میں بیگانگی پیدا ہوتی ہے جو اُنہیں اِن معاشروں سے دُور کرتی ہے جن کے بطن سے اُن کی سماجی شخصیت پیدا ہوتی ہے۔ برصغیر کی ہندپاک ثقافت سے نفرت، کٹر مُلّائیت پسندی کی مظہر ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ان معاشروں کیلئے تباہ کُن ہے۔ صوفیائے کرام نے یہاں کے بسنے والوں کی زبان و ثقافت کے ذریعے ہی سے لوگوں میں اپنا مقام بنایا۔
8۔ دُنیا میں غالباً دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مسلمان اپنے دین پر زیادہ شدت سے عمل پیرا ہیں۔ اسلام کے حوالے سے جس اعتدال، توازن، میانہ روی، تحمل و برداشت، رواداری اور امن و سلامتی کی قدروں کی بات کی جاتی ہے، اُن سب کو مذہبی انتہاپسند، شدت پسندی سے ردّ کرتے ہیں۔ فکری طور پر مسلم دُنیا اندھیرے زمانوں (Dark Ages) میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اور عقلیت کا زمانہ (Age of Reason) مسلم دُنیا سے کوسوں دُور ہے۔ مسلمانوں کی خوفناک حالتِ زار اور مسلم دُنیا کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ ماضی پرستی اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ بدقسمتی سے فکری طور پر اسلامی نظریات منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ اصلاح کی تحریک ہے نہ اجتہاد کی گنجائش۔ مسلم ممالک کی پسماندگی، غربت، جہالت، سائنسی و سماجی علوم سے لاعلمی اور جدید زمانے کے تقاضوں سے بیزاری کے خود مسلم ممالک اور معاشرے ذمہ دار ہیں۔ کٹرپن، تنگ نظر، فرقہ پرستی اور قتل و غارت گری، اشتعال انگیزی اور متشدد پن سے مسلم دُنیا اور پیچھے رہ جائے گی اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی ذمہ دار ہوگی۔ اوّل تو اُن کے خلاف سازش کی کسی کو کیا پڑی، جب یہ خود ہی خودکشی کی راہ پر گامزن ہیں، اور سازش بھی تبھی کامیاب ہوتی ہے جب آپ خود احمق ہوں اور اگر کسی چیز کی کمی نہیں تو وہ حماقت اور جہالت ہے۔ علمی، سائنسی، معاشی، سیاسی اور تہذیبی میدانوں میں آگے بڑھ کر ہی مسلمان اور مسلم ممالک آج کی دُنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ تنگ نظر کٹر نقطہ نظر سے مسلمان راہِ نجات پانے سے رہے۔ جو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ خون ریزی آج ہر سو پھیلی ہوئی ہے، اُس کے خود مسلمان، بعض علمائے کرام اور اُن کی فرقہ وارانہ جماعتیں ذمہ دار ہیں۔ پاکستان میں بعد کی ترامیم سے آمروں کی لائی ہوئی کچھ غیرجمہوری ترامیم تو ختم ہوئیں لیکن ضیاءالحق کی بد روح کو آئین سے نہ نکالا جا سکا اور اس میں غیرمذہبی جماعتوں کی موقع پرستی بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے کی نشوونما میں کلچرل سرگرمیوں، فنونِ لطیفہ کے فروغ اور ثقافتی کثرت اور تعلیم عامہ حکمرانوں کی اولیتوں میں شامل نہیں رہے۔ اسی طرح اقلیتوں اور خواتین کے حقوق پر بھی مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ لبرل جماعتیں بھی سمجھوتہ کرتی رہی ہیں۔ سائنسی علوم اور خاص طور پر عمرانیات، اُردو زبان، مطالعہ پاکستان اور تاریخ کو مذہبی رنگ میں ڈھال کر فکری نشوونما کے تمام سوتے بند کر دیئے گئے ہیں۔
9۔ پاکستان کے قیام سے ہی یہ نظریاتی جنگ ہو رہی ہے کہ پاکستان کیا ہو؟ کیا یہ مُلّائی یا اسلامی ریاست ہو؟ یا پھر ایک جمہوری و سیکولر اور وفاقی ری پبلک ہو؟ اس میں حقوق و آزادیاں کیا ہوں؟ اقلیتوں کے کیا حقوق ہوں؟ ریاست و مذہب کتنے باہم جڑے ہوں اور کتنے علیحدہ علیحدہ ہوں؟ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو مُلّائیت والی ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ مذہبی آزادی کو مانتے ہوئے وہ مذہب کو ریاست کے معاملات سے علیحدہ رکھنا چاہتے تھے۔ اس نظریہ کے حامی پاکستان میں بلاامتیاز رنگ و نسل، عقیدہ و جنس تمام شہریوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری، عوام کا اقتدارِ اعلیٰ، جمہوریت، وفاقیت اور فکری کشادگی و رواداری کا فروغ، ان کا مطمع نظر ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور اقلیتوں کے مساوی حقوق اور حقِ اظہار پر ان کا اصرار یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک آزاد، جمہوری اور کثرتی معاشرے کے قیام کے حامی ہیں۔ جبکہ ہر مذہب و مسلک کے پیروکاروں کی آزادیٔ مذہب کا احترام کرتے ہوئے ریاست اور تعلیم و تدریس کو مذہبی منافرت سے ماورا کرنا چاہتے ہیں کہ انسانیت دوستی کی بنیاد پر ایک منصفانہ، ترقی یافتہ اور آزاد معاشرہ تشکیل پا سکے۔ یہ لااکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کے قائل ہیں۔
مذہبی انتہاپسندی اور دہشت فروغی کے نظریات کو شکست دیئے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری ہے کہ اہلِ علم، ماہرینِ عمرانیات اور مفکر اِک ہمہ جہت نظری و فکری مکالمے سے ایک قومی جمہوری اور روشن خیال بیانیے کو ہر سطح پر سامنے لائیں۔ کیا اس کیلئے حکومت و ریاست تیار ہے؟
تازہ ترین