• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
این آر او کا بھوت پھر سے جاگ اُٹھا

اسلام آباد(رپورٹ: زاہد گشگوری)قومی مفاہمتی آرڈیننس(این آر او) منگل کو سپریم کورٹ میں دوبارہ ابھر کر سامنے آیا۔ عدالت عظمیٰ اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ این آر او کی وجہ سے قومی خزانے کو کتنا نقصان ہوا۔ اس آرڈیننس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد8043ہے جنہوں نے مالی جرائم کئے اور قومی خزانے کو تقریباً ایک ہزار ارپ روپے کا نقصان پہنچایا۔ ان کی تلاش میں این آر او کا بھوت جاگ اٹھا ہے اس اقدام سے امکان ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) 2018 کے عام انتخابات کی دوڑ میں توجہ کا مرکز بن جائے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بدنام زمانہ آرڈیننس کی پشت پر ان تمام افراد کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں 2008ء کے عام انتخابات سے قبل8 ہزار سے زائد مقدمات ختم کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے اپنی سیاسی بقاء یقینی بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ سودے بازی کر کے این آر او جاری کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے مالی جرائم کے مقدمات ختم کئے گئے۔ بعدازاں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسے ختم کر دیا تھا۔ لیکن مبینہ طور پر قتل، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور خورد برد وغیرہ میں ملوث 8043افراد کے خلاف نیب عدالتوں میں مقدمات اپنے انجام کو نہیں پہنچے۔ درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی نے اس بارے میں عدالت عظمیٰ سے سخت کارروائی کرکے لوٹی ہوئی رقوم وا گزار کرانے کی استدعا کی ہے۔ نیب نے استفادہ کرنے والے 248افراد کی جو فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔ جنہوں نے انپے معلوم ذرائع آمدن سے کہیں زیادہ مال و دولت اکٹھا کی۔ ان میں سابق صدر آصف علی زرداری سرفہرست ہیں۔ جن پر مختلف کک بیکس کی مد میں ڈیڑھ ارب ڈالرز اور22ارب روپے وصول کرنے کا الزام ہے لیکن احتساب عدالتوں نے ان کے خلاف تمام الزامات مسترد کردیئے ہیں۔ نواب یوسف تالپور ارسس ٹریکٹرز کیس میں آصف زرداری کے ساتھ شریک ملزم ہیں۔ جن پر اختیارات کا ناجائز استعمال، حبس بے جا میں رکھنے، کرپشن، غیر قانونی پلاٹوں کے الاٹمنٹ ٹھیکوں میں ہیر پھیر اور دیگر سنگین الزامات ہیں۔ ان میں سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک، قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر حاجی نواز کھوکھر، سابق وفاقی وزیر احمد مختار، پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر مرحوم، سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا آفتاب شیر پائو، سابق وزیر تعلیم سندھ آغا سراج درانی، بیگم نصرت بھٹو مرحومہ، حبیب اللہ کنڈی، میر باز محمد کھیتران اور ملک مشتاق اعوان وغیرہ شامل ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کے سربراہ الطاف حسین پر 72، ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار کے خلاف 21 کے علاوہ بابر غوری، سابق گورنر عشرت العباد، عمران فاروق مرحوم، سلیم شہزاد، وسیم اختر، کنور خالد یونس پر سے مقدمات واپس لئے گئے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین نجکاری کمیشن کے عثمان غنی کھتری، بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد، پاکستان اسٹیل کے سابق چیئرمین عثمان فاروقی، سلمان فاروقی، شریک ملزم نیر بخاری، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے چوہدری محمد شریف اور پیکو کے سابق چیئرمین جاوید برکی کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر تحقیقات کا سامنا ہے۔ فہرست میں شامل 42بڑے بیوروکریٹس ریٹائر ہو گئے ہیں۔ مبینہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے چند نمایاں ناموں میں امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی سابق سیکرٹری تجارت سلمان فاروقی، سابق سیکرٹری خزانہ جاوید طلعت، وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری احمد صادق، سابق چیئرمین سی بی آر اے آر صدیقی، وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی اورپیرمکرم الحق شامل ہیں۔

تازہ ترین