• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف علیحدہ ہو جائیں گے؟

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف علیحدہ ہو جائیں گے؟

تحریک انصاف مطمئن یا پراعتماد ہے یا جولائی 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کا حد سے زیادہ یقین کہ اس نے اب تنہا پرواز کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ووٹ فروخت کرنے کے الزام میں اپنے 20 ارکان اسمبلی کے خلاف تادیبی کارروائی کے بعد اپنی پانچ سال سے اتحادی جماعت اسلامی سے اس کے تعلقات اب ٹوٹنے کی حد کو پہنچ گئے ہیں، اس کا رسمی اعلان باقی رہ گیا ہے۔ ایک ایسے وقت جب سیاسی جماعتیں ایسی شکست و ریخت سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں،عمران خان اور سراج الحق نے انتخابات میں علیحدہ راستے اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خیبر پختون خوا میں عمران خان نے تحریک انصاف کے 20 ارکان اسمبلی کے خلاف انضباطی کارروائی کی۔ انہوں نے جماعت اسلامی سے علیحدگی کی پرواہ نہیں کی۔ یہی کچھ نہیں، انہوں نے مولانا سمیع الحق کی جمعیت علماء اسلام سے بھی تعلق توڑ لیا۔ آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی سے تو انہوں نے بہت پہلے ہی علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اب جبکہ عمران خان تنہا پرواز کے لئے پر تول رہے ہیں، جماعت اسلامی بھی علیحدہ ہی پرواز پکڑے گی۔ اس بار مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام سے اس نے رشتہ جوڑ لیا ہے۔ تحریک انصاف کو خیبر پختون خوا اسمبلی میں سادہ اکثریت ملنے کا یقین ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے 20 ارکان کو شوکاز نوٹسز جاری کرنے کے بعد ان میں سے تین پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے جن میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علی ظاہر، چترال کی آنسہ فوزیہ اور عارف یوسف شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماء شوکت یوسف زئی کو یقین نہیں کہ جماعت اسلامی اس وقت تک صوبائی مخلوط حکومت سے علیحدہ ہو گی جب تک جے یو آئی (ف) وفاقی حکومت سے نہیں نکل جاتی۔ انہوں نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان اعتماد کے خسارے اور بھروسے کے فقدان کا اعتراف کیا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ جماعت اسلامی کو بلدیات اور خزانہ کی اہم وزارتیں دیں لیکن اس نے مسائل ہی پیدا کئے۔ اب جماعت اسلامی جے یو آئی (ف) کے ساتھ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے گی۔ جماعت اسلامی نے مولانا فضل الرحمٰن سے ہاتھ ملا کر ایک بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ جن کے ساتھ وہ 2002 سے 2008 تک ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے خیبر پختون خوا کی مخلوط حکومت میں شریک اقتدار رہے۔ اب اسی کے پرچم تلے وہ 2018 کا الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ایک ایسے وقت تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے علیحدہ ہونے جا رہی ہے جب عمران خان کو رواں سال کے عام انتخابات میں کامیابی کا یقین ہے۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کا اتحاد تحریک انصاف کو کس حد تک زک پہنچا سکتا ہے اور خود جماعت اسلامی کو کتنا نقصان ہوگا، یہ ایک دلچسپ مشاہدہ ہوگا۔ بدلتے سیاسی منظرنامے میں بنیادی اصولوں سے زیادہ ایک دوسرے پر الزامات زیادہ کام دکھائیں گے۔ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کے لئے جماعت اسلامی کے ہاتھوں میں کچھ ہونا چاہئے۔ جبکہ پی ٹی آئی کا جماعت اسلامی پر الزام ہے کہ وہ جے یو آئی (ف) کے ذریعہ معزول وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مل گئی ہے۔ جماعت اسلامی کا الزام ہے کہ تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات میں 60 کروڑ روپے میں اپنے ارکان بیچے۔ پھر سراج الحق کا وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک کے حوالے سے یہ بیان کہ ووٹ دینے کا حکم ’’اوپر‘‘ سے آیا تھا۔ اسے تحریک انصاف کے مخالفین نے ذومعنی بنا کر اپنے معنی دیئے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان 5 سال کی رفاقت میں اختلافات بھی پروان چڑھے، خصوصاً ایم ڈی خیبر بینک کے تنازع پر یہ کھل کر سامنے آئے۔ تحریک انصاف کی لبرل پالیسیوں اور انداز نے جماعت اسلامی کے بزرگوں کو نالاں کیا۔ جس کی وجہ سے جماعت اسلامی نے 2014 کے دھرنے میں تحریک انصاف سے فاصلہ اختیار کئے رکھا لیکن متحدہ مجلس عمل کی بحالی اورمولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مل جانا تحریک انصاف۔ جماعت اسلامی اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ جماعت اسلامی کی شوریٰ کے اجلاس کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ اس کا اتحاد ختم ہو جائے گا۔ 31 مئی کو خیبر پختون خوا حکومت کی معیاد کے خاتمے سے چند ہفتے قبل ہی دونوں جماعتوں کی راہیں جدا ہو جائیں گی۔ اس اتحاد کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن)، اے این پی، پیپلز پارٹی اور قومی وطن پارٹی کے لئے بھی گنجائش نکل آئے گی۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان محبت و نفرت کے امتزاج کے ساتھ تعلق اس وقت قائم ہوا تھا جب اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے پنجاب یونیورسٹی آمد پر عمران خان سے بدسلوکی کی تھی۔ جماعت اسلامی نے واقعہ پر اظہار افسوس کیا تھا۔ بعدازاں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مل کر 2008 کےعام انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور 2013 کے عام انتخابات کے بعد 5 سال تک خیبر پختون خوا کی مخلوط حکومت میں اتحادی رہے۔ جب تقریباً سال بھر قبل جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے احیاء پر اتفاق اور ایک پلیٹ فارم سے انتخابات لڑنے کے عزم کا اظہار کیا، تو جماعت اسلامی کا تحریک انصاف سے علیحدہ ہونا فطری بات ہے۔ اس سے خیبر پختوان خوا کی سیاست میں کیا تبدیلی آئے گی؟ وہ انتخابات سے قبل جلد ہفتوں میں نظر آجائے گی لیکن تحریک انصاف اب تنہا ہی پرواز بھرے گی اور عمران خان کو اس پرواز کے محفوظ اترنے کا یقین ہے۔

تازہ ترین