• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمینیا میں بے چینی

آرمینیا ،کوہ قاف کے پہاڑوں میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے، مگر آج کل بڑے مسائل کا شکار ہے۔ بائیس اپریل کووہاں حکومت مخالف احتجاج کی قیادت کرنے والے راہ نما نکول پاشین یان (NIKOL PASHWYAN)کی گرفتاری کے بعد سیاسی بحران مزید شدید ہو گیا۔

آرمینیا ان پندرہ ریاستوں میں سے ایک ہے جو 1991تک سابق سوویت یونین کا حصہ تھیں۔ سوویت یونین کی تین ریاستیں کوہ قاف یا قفقاز کے جنوب میں واقع تھیں جو آذر بائی جان، گروزیا (جارجیا)اور آرمینیا ہیں۔ان تینوں ریاستوں میںسے صرف آذر بائی جان مسلم اکثریت کی حامل ہے۔ آرمینیا اور گروزیا یا جارجیا مسیحی اکثریت ہے۔

آرمینیا کی ثقافت قدیم ہے۔وہاں کے لوگوں نے پہلی صدی عیسوی ہی میںعیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ اس طرح یہ دنیا کی پہلی ریاست تھی جہاں عیسائیت مذہب کے طور پر رائج ہوئی۔ پھر تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میںعیسائیت کووہاں سرکاری مذہب کا درجہ دے دیاگیاتھا۔سرکاری طورپر301عیسوی میںوہاں عیسائیت کو سر کاری مذہب قرار دے دیا گیا تھا۔ سولہویں سے انیسویں صدی کے دوران وہاں عثمانی ترکوں کی حکومت رہی۔انیسویںصدی کےاواخرمیںمشرق آرمینیاپرروسی سلطنت نے قبضہ کر لیا تھا۔تاہم مغربی آرمینیا سلطنتِ عثما نیہ کا حصہ رہا۔ آرمینیا کے لوگوں کا الزام ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ نے بڑے پیمانے پر آ ر مینیا کے لوگوں کا قتل عام کیاتھا۔

آرمینیا میں بے چینی

روس میں 1917میں بالشویک انقلاب آنے کے فوراً بعد تقریباً تمام غیر روسی علاقوں نے روس سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا،کیوں کہ سلطنت رو س ختم ہو چکی تھی ۔ اس طرح 1918میں جمہوریہ آرمینیا وجود میں آئی جو صر ف دو سال قائم رہ سکی تھیکیوں کہ 1920کے اواخر تک اس پر سوویت فوجوں نے قبضہ کر لیا تھا اور 1922سے 1991تک آرمینیا سابق سوویت یونین کا حصہ رہا ۔ ابتدا میں آرمینیا،ماورائے قفقازکی سوویت ریاست کا حصہ تھا جس میں آذر بائی جان اور جارجیا بھی شامل تھے ۔ 

مگر1936میں اسے تین حصوں میں تقسیم کر کے تینوں ر یاستوں کو صوبوں کا درجہ دے دیا گیا تھا۔1936کے بعد تقریباً نصف صدی تک آرمینیا میں نسبتاً سکون رہا تھا۔ مگر 1980کے عشرے کے اواخر میں جب گوربا چوف نے سوویت یونین میں اظہار رائے کی آزادی دی تو آ ر مینیا میں تحریکِ آزادی شروع ہو گئی جو بالآخر سوویت یونین کےخاتمےپر منتج ہوئی۔

اکتوبر 1991میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخاب میں پیترو سیان (PETROSYAN)آزاد آرمینیا کے پہلے صدر منتخب ہوئے جو 1998تک اس عہدےپررہے۔ان پرالزام ہے کہ انہوں نے 1996 میں انتخاب میں دھاندلی کر کے خود کو دوسری بار صدر منتخب کرایا تھا۔ احتجاج کے نتیجے میں پیترو سیان دوسری پانچ سالہ مدت صدارت مکمل نہ کر سکے اور صرف دو سال بعد 1998میں انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ان کے بعد وزیر اعظم کو چاریان (KOCHARYAN)صدر منتخب ہوئے جنہوں نے 2008تک دو صدارتی میعاد مکمل کیں۔ چوں کہ آرمینیا کے آئین کے مطابق صدر دو میعاد سے زیادہ اس عہدے پر نہیں رہ سکتے، اس لیےوہ 2008کے بعد اس عہد ے پر نہیں رہے۔

ان کے بعد حزب اقتدارہی سے تعلق رکھنے والی ری پبلکن پارٹی کے راہ نما اور اس وقت کے وزیر اعظم سارگ سیان(SARG SYAN) جمہوریہ آرمینیا کےصدر منتخب ہوگئےاور 2008 سے2018 تک اس عہدے پررہے۔تاہم صدر کے عہدے کی میعا د مکمل ہونے کے بعد انہوںنے روس کے صدر، و لا د ی میرپوتن کے نقش قدم پرچلتے ہوئے آئینی رکاوٹ کے با عث فیصلہ کیا کہ اب صدارت کے بجائے وزارت عظمی سنبھال لی جائے۔چناں چہ 7اپریل 2018کو انہوں نے عہدہ صدارت چھوڑ کر وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا۔

رواں برس مارچ میں ہونے والے صدارتی ا نتخا با ت میں حکم راں جماعت کی حمایت سے سارکی سیان (SARKISSIAN)صدر منتخب ہوگئےاور سارگ سیا ن وزیر اعظم بن گئے۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں چوں کہ حکم راں جماعت ، ری پبلکن پارٹی کو خطرہ تھا کہ اس کا امیدوار صدارتی انتخاب ہار سکتا ہے اس لیے اس نے آئین میں تبدیلی کر کے صدر کے بہ راست انتخاب کے بجائے قومی اسمبلی کے ذریعے صدر منتخب کرالیااور حزبِ مخا لف کا احتجاج دبانے کی کوشش کی۔نئے صدر نے اسمبلی سے نوّے فی صد ووٹ حاصل کیے۔

اب وہاں صورت حال یہ ہے کہ پولیس نے حزبِ اختلاف کے رکن پارلیمان کو گرفتار کر لیاہے جو حکومت کی مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔ بات یہاں تک اس طرح پہنچی کہ موجودہ وزیر اعظم ،سارگ سیان گزشتہ دنوں حزبِ اختلاف کے راہ نما پاشین یان کے ساتھ ٹی وی پر ہونے والے ایک مذا کر ےمیں شریک تھے۔اس مذاکرےمیںپاشین یان نے اصرار کیا کہ وزیر اعظم کو استعفی دے دینا چاہیے۔اس مطالبےپر وزیر اعظم غصے میں آ گئے اور مذاکرہادھورا چھوڑ کر چلے گئے جس کے بعد پاشین یان کو دھر لیا گیا ۔

آرمینیا میں حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ آئین میں کی گئی مذکورہ ترمیم دراصل سابق صدر اور موجودہ وزیر اعظم کی جانب سے اقتدار پر قابض رہنے کا حربہ ہے۔ یا د رہے کہ یہ ترمیم گزشتہ ہفتے ہی منظورکی گئی تھی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں وزیر اعظم کا کردار مستحکم کیا گیا ہے کیوں کہ ا ب اس عہدے پر سابق صدر سارگ سیان براجمان ہو گئے ہیں۔

حزب ِمخالف کے احتجاج کے نتیجے میں وزیر اعظم اس بات پر راضی ہو گئے تھےکہ وہ ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے حزب مخالف کے رہنما سے مذاکرہ کر یں۔مذکورہ مذاکرے کےآغاز میں وزیر اعظم نے خوش د لی سے کہا کہ گفتگوکرنا اچھی بات ہے، مگر حزبِ مخالف کے راہ نما نے فوراً لقمہ دیا کہ میں یہاں گفتگو کرنے نہیں بلکہ آپ کا استعفی لینے آیا ہوں جس پر وزیر اعظم بپھر گئے اور اٹھ کر چلتے بنے۔اس کے بعد حزب مخالف نے مظا ہروں میں شدت پیدا کردی اور اب وہاںوزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حکم راں جماعت، ری پبلکن پارٹی کے پچیس سالہ دور اقتدار میں آرمینیا کے عوام کی غربت کم ہوئی اور نہ ہی پڑوسی ممالک، آذر بائی جان اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے عوام میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے۔ ری پبلکن پارٹی میں ابتدا ہی سے سابق کمیونسٹ نظریات کے افرادحاوی رہے ہیں اور وہ تقریباً کمیونسٹوں ہی کے طور طریقوں سے حکومت کر رہے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ جلسے جلوس کی نسبتازیادہ آ زادی ہے۔ حزب مخالف کے راہ نما اس سے قبل بھی جیلو ں میں رہ چکے ہیں اور اب وہ جمہوری انقلاب لانے کی با تیں کر رہے ہیں۔تاہم وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ پانچ سا لہ مدت مکمل کر کے ہی عہدہ چھوڑیں گے۔

آج صرف تیس لاکھ کی آبادی والا یہ ملک روس، ترکی اور مالدیپ کی طرح اقتدار کی کش مکش کا شکارہے۔ روس اور ترکی میں صدر پوتن اور صدر اردوان تقریباً اٹھارہ برس سے برسر اقتدار ہیں اور مزید دس پندرہ برس تک ا قتد ارمیں رہنا چاہتے ہیں۔ اس کےلیے آئینی ترامیم بھی کی جاتی رہی ہیں اور صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کو باری باری استعمال کیا جاتا رہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میںعہدہ صدارت پر صرف دو میعاد تک بر قرار رہنے کی آئینی پابندی اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ غالباً ا سی لیے چین میں بھی صدر شی جن پنگ نے یہ رکاوٹ دور کردی ہے تاکہ دومیعاد مکمل کرنے کے بعد انہیں صدر کا عہدہ چھوڑنا نہ پڑے۔

تاہم مالدیپ میں مسئلہ تھوڑا مختلف تھا۔ وہاں عدلیہ صدر کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھی ۔لہذا صدر نے فوج کے ساتھ مل کر ججزہی کا صفایا کرنا شروع کر دیاہے۔ اسی تناظر میںپاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی حالات زیادہ مختلف نظر نہیں آتے۔ دیگر ممالک بھی اس طرح کی اقتدار کی جنگ دیکھتے رہے ہیں۔تاہم اس رسہ کشی میں نقصان ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔

عوام کے منتخب نمائندوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا یا پھر وہ خود اقتدار میں آکر آمرانہ انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ حالاں کہ ان کا اصل مقصد جمہوری اقدار کا فروغ ہوناچاہیے نہ کہ شخصی ا قتدارکا تحفظ اور ترویج۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر حا لت میں عوامی اور جمہوری اقتدار ہی مسائل کابہتر حل ہے۔

تازہ ترین