محمد مقبول حسین کانجو
وہ بولے، یہ تو درست ہے،مگر ادبی سلسلے میں ملازمت کا کیا سوال ہوسکتا ہے؟ آپ کے خیال میں کون سا محکمہ ایسا ہے، جو آپ کے جیسے ادیب کے لیے جگہ نکال سکے گا؟ کم سے کم میری سمجھ میں تو آ نہیں رہا۔عرض کیا، آپ محکموں پر نظر نہ ڈالیے۔ میرے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ آپ کے ادارے میں کوئی خدمت میرے سپرد کردی جائے۔
ایڈیٹر صاحب نے فرمایا، ضرورت تو مجھ کو بھی ہے، اپنے یہاں چند لوگوں کی، مگر معاف کیجیے گا، میں نے آج تک سوائے غزلوں کے اور کوئی چیز آپ کی نہیں دیکھی ۔
عرض کیا شجرہ موجود ہے، وہ میں دکھا سکتا ہوں۔ خود مجھ کو آپ دیکھ ہی رہے ہیں اور کوئی چیز سے مطلب کیا ہے؟ جناب ذرا وضاحت فرمائیںتو کچھ عرض کروں۔
وہ بولے، نثر غالباً آپ نے کبھی نہیں لکھی۔ نہ آپ کا کبھی کوئی افسانہ پڑھا ہے، نہ کوئی تنقیدی مضمون دیکھا ہے، نہ کوئی تخلیقی مقالہ۔ عرض کیا، جناب والا، یہ آپ نے درست فرمایا اور یہ واقعہ بھی ہے، اب تک اس قسم کی کوئی چیز لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے۔ان کو بہانہ مل گیا، آنکھیں گھما کر بولے، اب آپ خود غور فرمائیے کہ کسی ادبی رسالے کے ادارۂ تحریر میں آپ کو کیونکر شامل کیا جاسکتا ہے؟ آپ کی شاعرانہ صلاحیت مسلّم ہے، مگر اس کی ہم کو ضرورت نہیں۔
ایسے کور ذوق سے کچھ اور کہنا ہی بے کار تھا۔ اِدھر اُدھر کی گفتگو کرکے چلے آئے اور طے کرلیا کہ اب اُدھر کا رخ بھی نہ کریں گے، مگر کسی اور طرف کا تو رخ کرنا ہی تھا، ورنہ فاقوں کی نوبت بھی دُور نہ تھی۔ کافی دماغ سوزی کے بعد ایک ترکیب ذہن میں آئی کہ اگر کوئی کتب فروش دیوان چھاپنے پر تیار ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔ حقِ تصنیف بھی مل جائے گااور پردیس میں اپنے تعارف کا ایک ذریعہ اس دیوان کی صورت میں نکل آئے گا۔
بالکل الہامی طورپر دیوان کا نام ذہن پر نازل ہوا۔ ’’لیلائے سخن‘‘ دوسرے ہی دن یہاں کے ایک پبلشر سے ملنے کے لیے روانہ ہوگئے، شہر کے سب سے بڑے پبلشر کا نام اور پتہ پہلے ہی پوچھ رکھا تھا، اُن کی دکان پر پہنچ کر اُن سے شرفِ نیاز حاصل کیا اور آخر اپنا تعارف خود کرایا:
جناب! خاکسارکےنام سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ وہ حضرت بھی عجیب چیز نکلے، کہنے لگے، پھر؟
غصہ تو بہت آیا اُس ’’پھر‘‘ پر، مگر کیا کرتے، وقت آپڑا تھا، لہٰذا خود کو سنبھال کر کہا، میں نے آپ کے یہاں کی مطبوعہ اکثر کتابیں دیکھی ہیں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ طباعت کا جو سلیقہ آپ کو حاصل ہے، وہ کسی اور پبلشر کے حصے میں نہیں آیاہے ۔ میں نے طے کرلیا ہے کہ میں اپنا دیوان اگر کسی کو دے سکتا ہوں تو وہ صرف آپ کو۔ کیا نام ہے، اُس کتاب کا،جو ابھی آپ نے شائع کی ہے؟ وہ ڈکار لیتے ہوئے بولے ’’کلیدِ مرغی خانہ۔‘‘
عرض کیا، جی ہاں کلید مرغی خانہ، کیاکہنا، اس کتاب کا۔ کتابت اور طباعت، ماشا اللہ۔ پھر ترتیب و سجاوٹ، دلہن بنا کر رکھ دیا ہے آپ نے کتاب کو! میں نے اپنے دیوان کا نام تجویز کیا ہے’’ لیلائے سخن‘‘۔
اُنہوں نے براہِ راست سوال کیا، تو آپ چھپوانا چاہتے ہیں، اپنا دیوان؟ عرض کیا، جی ہاں۔ ارادہ تو کچھ ایسا ہی ہے۔ میں نے اپنے چار دو اوین میں سے انتخاب کرکے ایک دیوان مرتب کیا ہے۔
اُنہوں نے کہا، اچھا تو ہم چھاپ دیں گے۔ بہترسے بہتر لکھائی چھپائی ہوگی۔ کاغذ وہی ہوگا، جو کلید ِمرغی خانہ کا ہے۔ ہم آپ کو ابھی حساب لگا کر بتائے دیتے ہیں کہ آپ کو کیا خرچ کرنا پڑے گا۔
ہم نے چونک کر کہا، ہم کو کیا خرچ کرنا پڑے گا؟ غالباً آپ میرا مطلب نہیں سمجھے! وہ ہم سے زیادہ متحیر ہوکر بولے، تو کیا مطلب ہے آپ کا؟ مطلب یہ ہے کہ آپ لے لیجیے دیوان اور چھاپیے۔ حقِ تصنیف طے ہوجائے گا، جو مناسب سمجھیں دے دیجیے۔
اُنہوں نے ایک ایسا قہقہہ لگایا، گویا کوئی بہت دلچسپ لطیفہ سنا ہو،پھر عجیب تمسخر سے بولے، ’’آپ گویا یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا دیوان آپ سے خرید کر خود بیچنے کے لیے چھاپیں۔ آج کل بھلا کون کسی کا دیوان چھاپتا ہے؟ کس کے پیسے فالتو ہیں کہ وہ دیمک کی ضیافت کے لیے دیوان چھاپ کر اپنے یہاں ڈھیر کرے؟ ہم نے ایک دو شعرا کے مجموعوںکا حوالہ دیا، جو حال ہی میں شائع ہوئے تھے اور عرض کیا، آخر یہ مجموعے اور یہ دیوان بھی تو چھپے ہیں۔
زانو پر ہاتھ مار کر بولے، اوہو۔ آپ سمجھے نہیں، جن شاعروں کا آپ نے نام لیا ہے، اُن کی تو اس وقت مانگ ہے۔ اُن کے مجموعے تو اگر اس وقت ہم کو بھی مل جائیں تو ہم بھی سب کچھ چھوڑ کر چھاپ دیں۔
اب تو قابو میں رہنا مشکل تھا، تلخی سے عرض کیا، کیا مطلب آپ کا؟ اگر آپ میرے نام سے واقف نہیں ہیں اور میرے شاعرانہ مرتبے کو نہیں جانتے تو اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں، یہ آپ ہی کی کوتاہی ہے، ورنہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک خاص مقام رکھتا ہوں، اس دور کے شعرا میں۔
(جاری ہے)