چینی نسل نو میں ایک خاموش انقلاب جنم لے رہا ہے۔نوے کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والی نسل جسے جنریشن وائی یا نیٹ جنریشن کا نام دیا جاتا ہے، وہ روایات سے باغی ہیں ۔وہ اپنے آباءواجداد سے کچھ مختلف کرنا چاہتے ہیں۔
برطانوی اخبار’فنانشل ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ چینی معاشرہ ان نوجوانوں پر دباؤ ڈالتا ہے کہ تیس سال کی عمر سے قبل اچھی ملازمت تلاش کریں، اپارٹمنٹ خریدیں اور شادی کریں لیکن معاشی بحالی، گھروں کی قیمتوں میں اضافہ اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلئے طلباءکی بڑھتی تعداد نے نسل نو کے مقاصد میں مزیدمشکلات پیداکردی ہیں ۔
ایسے میں چینی نوجوانوں میں اپنے والدین کے مقابلے میں’اچھی زندگی‘ کے حوالے سے مختلف نظریات پیدا ہوچکے ہیں۔ یہ نئی نسل چین سے کچھ نیا چاہتی ہے اور ا س کے تعاقب میں چین کوبھی تبدیل کررہے ہیں ، ایک خاموش انقلاب پنپ رہا ہے۔
اخبار نئی نسل کی بددلی کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ بیجنگ کے کاروباری ضلع میں ایک مشروب فروخت کرنے والے اسٹال کا نام’گھر خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے والی’ آئسڈ لیمن ٹی‘ تھا جبکہ ایک اور اسٹال کا نام’میری سابقہ گرل فرینڈ نے امیر فروٹ جوس کے صاحبزادے سے شادی کرلی‘۔ اسے ’سنگ ٹی‘ برانڈ کانام دیا جارہا ہے ،یہ کاروبار گزشتہ برس شنگھائی سے شروع ہوا۔
سنگ کا مطلب ’اداس یا بد دل‘ ہے۔سنگ ٹی کی ویب سائیٹ پر ’روزانہ ایک منفی توانائی کا کپ‘ لوگو ہے جس کا مقصدصدر ژی جن پنگ کے نعرے ’مثبت توانائی‘ کامذاق اڑانا ہے ،صدر نوجوان نسل کو ملکی ترقی کی حمایت کے لئے اس نعرہ کا سہارا لیتے ہیں۔’ سنگ ٹی‘ کلچر اب نوجوانوں میں مقبول ہورہا ہے اور نیٹ پر نوجواں نسل کے احساسات کی ترجمانی کرتی کئی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نسبتاً خوشحال دور میں پیدا ہونے کے باوجود، بڑے شہروں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نہ صرف لیبر مارکیٹ میں غیر معمولی مسابقت کا سامنا ہے بلکہ ایک اپارٹمنٹ خریدنے میں بھی مشکل ہے،چینی عوام کے نزدیک اپارٹمنٹ ایک بنیادی اثاثہ ہے،جو شادی سے قبل کسی نوجوان کے پاس ہونا ضروری ہے۔ کرائے کے فلیٹ میں رہتے ہوئے بچے کی پیدائش خوش قسمتی نہیں سمجھا جاتا ۔ تحقیق کے مطابق، ستر فی صد چینی نوجوان اپنے گھر کے مالک ہیںجبکہ اس کے مقابلے میں امریکی نوجوانوں کی یہ شرح 35 فی صد ہے۔ چین میںتنخواؤں میں اضافے کے باوجود گھروں کی قیمتیں لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔
ایک ڈیٹا کمپنی کے مطابق، چین کے بڑے شہروں میں فی مربع میٹراوسط قیمت گزشتہ آٹھ برسوں میں دوگنا ہو چکی ہے۔ پچھلی نسل ایک منصوبہ بندی کی معیشت میں پروان چڑھی اس دور میں بڑے ادارے یا محکمے سرکاری تھے جہاں نظام زندگی کی دیکھ بھال ، صحت ، پنشن اور یہاں تک ایک گھر کا بندوبست کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔آج چین میں وہ خوش قسمت ہے جس کا گھر کسی بڑے شہر میں ہے۔گزشتہ برس کے ایک مطالعہ کے مطابق بیجنگ میں اوسط کرایہ دار اپنی آمدنی کا58فی صد مکان کے کرائے میں خرچ کرتے ہیں،یہ شرح شینزن میں54اور شنگھائی میں48فی صد ہےجبکہ اس کے مقابلے میں2016 میں لندن میں ایک کرایہ دار اپنی آمدن کا49فیصد کرائے کی مد میں دیتا تھا۔
نجی سیکٹر کی ترقی اور یونیورسٹی کی تعلیم نے انٹرن شپ کے حصول میں مشکل پیدا کردی۔ اس کے ساتھ غیر ملکی تجربا ت اور دیگر مہارتوں نے بھی مقابلے کی فضا پیدا کردی ہے۔ 2017میں نئی لیبر مارکیٹ میں نصف سے زائد تعداد یونیورسٹی گریجوایٹ کی تھی جو آٹھ کروڑ بنتی ہے جب کہ ایک عشرہ قبل یہ تعداد چار کروڑ تھی۔مقابلے کی فضا اور ست روی کا شکار معیشت نے نئے گریجویٹ کی ماہانہ آمدنی میں گزشتہ برس کے مقابلے میں16فی صد کمی کردی ہے،آج نئے گریجوایٹ کی ماہانہ آمدنی اوسطاً590ڈالر ہے۔ نوے کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والوں میں آج82فیصد ایسے نوجوانوں کی ہے جن کے پاس ایک نوکری تو ہے جس کے باوجود وہ کوئی دوسراروزگار کے بھی متلاشی ہیں اگر انہیں دستیاب ہو۔
سنگ ٹی جنریشن سوشل میڈیا کی غیر متعلقہ سرگرمیوں پر حاوی ہیں، چین میں75کروڑ تیس لاکھ موبائل فون صارفین ہیں،ٹی وی اور ریڈیو پر سنسر شپ کی وجہ سے نوجوان انٹرنیٹ کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔چینی نوجوان اپنی نجی اور سماجی زندگی میں اور خاص کر آن لائن آزادی چاہتا ہے۔
گزشتہ دوبرسوں میں صدر ژی جنہیں پاپا ژی سے زیادہ جانا جاتا ہے ،انہوں نے نوجوان نسل کے فطرتی انداز زندگی پر سخت پابندیا ں عائد کردیں ہیں ،کئی آن لائن ویب سائٹ،لائیو اسٹریمنگ پلیٹ فارم،آرٹیکلز اور ویڈیوز پر پابندی عائد کردی ہے ۔نوے کے دہائی کے بعد کی نسل سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن میں ماسٹر ہے۔پابندیوں کے باوجود انہیں تصاویر اور ویڈیو آن لائن کرنے کے طریقے معلوم ہیں۔