• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکا کی دہشتگردی اور اسلام دشمنی اپنی جگہ۔ پاکستان کا امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننا بلاشبہ پاکستان اور مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ ڈرون حملے بے شک بدترین دہشتگردی اور سینکڑوں معصوم انسانوں بشمول بچّوں ، عورتوں اور بوڑھوں کے قتل کا موجب ہیں۔۔۔ افغانستان پرامریکی اور نیٹو افواج کے قبضے اور وہاں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں ہمارا کردار یقیناً گھناؤنا رہا… فوجی آپریشن بھی میری نظر میں کسی مسئلے کا حل نہیں…یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان اپنی موجودہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کرے تا کہ ہم امریکا کی غلامی سے آزاد ہو سکیں…مگر14 سالہ بچی ملالہ یوسفزئی کو جان سے مارنے کی کوشش کرنا کون سا جہاد ہے؟؟؟ یہ اسلام کہ کیسی خدمت ہے؟؟؟ حکومت پاکستان اور فوج کی پالیسیوں سے اختلاف کی بنیاد پر اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو نشانہ بنانا اور اس کو ایسے کمزور کرنا جو امریکا کی خواہش ہے، کس طرح درست ہو سکتا ہے؟؟؟ اگر بغیر کسی ٹرائل کے انتہا پسندی یا دہشتگردی کا ٹھپہ لگا کر کسی بھی مسلمان کو مارنا ناجائز ہے تو چالیس ہزار پاکستانیوں بشمول عام شہریوں، بچّوں، عورتوں، سپاہیوں، فوجیوں اور سیکیورٹی سے متعلق افراد جن کاحکومتی پالیسیاں بنانے میں بھی کوئی کردار نہیں، کو خودکش دھماکوں کے ذریعے مارنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔
میں تو اُس اسلام کو جانتا ہوں جو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی کسی مسلمان کا ہاتھ حتّٰی کہ ایسے کسی غیر مسلم کے خلاف بھی نہیں اُٹھ سکتا جو مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو ۔ بچّوں، بوڑھوں اور عورتوں کے ساتھ تو ویسے ہی رعایت سے پیش آنے کا حکم ہے۔ میرا دین کسی معصوم غیر مسلم کو بھی مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میرے نبی نے تو ایک کلمہ گو کی جان اور مال کی حرمت کو کعبہ کی حرمت پر ترجیح دی۔ ایک چودہ سالہ بچی پر حملہ محض اس لیے کرنا کیوں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے یا کسی خاص سوچ کی داعی نہیں، پر قاتلانہ حملہ کرنا کون سا اسلام اور کیسا جہاد ہے؟؟؟ کوئی شخص یا گروہ یہ فیصلہ کرنے کا کیسے حق دار بن سکتا ہے کہ کون اچھا مسلمان ہے اور کون بُرا اور یہ کہ کون بچہ مستقبل میں اچھا یا بُرا مسلمان بنے گا اور کس کو جینے کا حق ہے یا نہیں؟؟ یہ فیصلے تو میرے اللہ کے کرنے کے ہیں۔ہاں فرعون نے خود کو خدا سمجھ کر بچوں کو پیدا ہوتے ہی مارنے کا کام ضرور کیا تھا اور اپنے اعمال کی وجہ سے دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ ایک بچی کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کو اسلام دشمنی سمجھنے والوں اور اُسے سیکولر گرداننے والوں کو کیا یہ احساس ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم تمام مسلمانوں بشمول عورتوں کے لیے کس قدر ضروری ہے۔کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ حضرت عائشہ  40 سال سے زیادہ عرصہ درس و تدریس کرتی رہیں ۔ اپنے علم کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کے لیے احادیثِ نبوی کا ایک اہم ترین ذریعہ ہیں۔ آج کے پاکستان میں کیا ہم اُس آپا نثار فاطمہ کو بھول سکتے ہیں جو دین اور دنیا کے علم سے منوّر تھیں اور جن کی کوششوں سے پاکستان کو ناموسِ رسالت کا قانون ملا؟؟ کیا یہ سچ نہیں کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کی تعلیم حاصل کرنے والی ڈاکٹر فرحت ہاشمی ایک ایسے خاموش اسلامی انقلاب کا ذریعہ بنی ہیں کہ جنہوں نے لاکھوں خواتین کو اسلام کی طرف اللہ کی منشاء سے راغب کیا؟؟ کیا ہم سابق ایم این اے اور کالم کار عامرہ احسان کی اسلام کے لیے خدمات اور قربانیوں کو بھول سکتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی علم کے زور پر کس طرح اسلام دشمنوں کی سازشوں کو اپنے قلم اور زبان کے ذریعے بے نقاب کرتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں پیمرا نے فحاشی کے موضوع پر بلائے گئے اپنے اجلاس میں مخصوص سوچ رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا جس کا میں نے احتجاجاً بائیکاٹ کیا۔ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں اسلامی ذہن رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنے دینی اور دنیاوی علم کے زور پر فحاشی کا دفاع کرنے والوں کی ایک نہ چلنے دی۔ اسلام دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں دین کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی پڑھنا ہو گا اور یقیناً تعلیم مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی حق ہے۔ مسلمانوں نے کئی سو سال تک دنیا پر اپنے دینی اور دنیوی علم کے زور پر راج کیا۔ بجائے اس کے کہ بچیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگانے کے لیے دہشتگردی کی جائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ پرامن جدّوجہد کے ذریعے اپنے تعلیمی نظام میں قرآن اور حدیث کی تعلیم کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان بچّے اور بچی کے لیے لازمی قرار دیا جائے تا کہ جب کوئی بچّہ گریجویٹ ہو کر نکلے تو اُس کو اسلام کے بنیادی فلسفہ کا پتا ہو۔ علم کا حصول تو میرے اللہ کا حکم ہے۔ اللہ کے اس حکم کو تحریک طالبان پاکستان یا کوئی دوسرا کیسے بدل سکتا ہے۔ کون اچھا مسلمان ہے اور کون بُرا اس کا فیصلہ تحریک طالبان یا کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے۔ سوچ کے فرق کی بنیاد پر کسی دوسرے کو قتل کرنے کی اجازت کون سا اسلام دیتا ہے؟؟؟
تحریک طالبان پاکستان کی پر تشدّد کارروائیوں سے میرا شدید اختلاف اپنی جگہ مگر ملالہ یوسفزئی کے اس تازہ واقعہ سے ہماری حکومت اور فوج کو بھی اپنی امریکا نواز پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تحریک طالبان کی دہشتگردی کے باوجود حکومت اور فوج کو اُن اسباب کا ادراک بھی کرنا ہو گا جو پاکستان میں دہشتگردی اورخودکش دھماکوں کی وجہ بنے۔ اپنے شہریوں اور بچوں کی جانوں کی خاطر ہمیں امریکا کی جنگ سے علیحدہ ہو کر تحریک طالبان سے بات کرنی ہو گی۔ اگر ہم بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کرنے والوں سے بات چیت کر سکتے ہیں تو طالبان سے بات کیوں نہیں ہو سکتی۔ ایک طرف تحریک طالبان کو اپنے مظالم روکنے ہوں گے تو دوسری طرف حکومت اور فوج کو اُن پالیسیوں کوخیر باد کہنا ہو گا جو پاکستان میں طالبانائزیشن کا سبب بنیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے وہ نامور علما ء اور مذہبی رہنما جن کا دونوں طرف اثرورسوخ ہے، کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کو موجودہ فتنہ سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر علماء حضرات بھی ایسا نہ کریں گے تو پاکستان میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے مارے جانے کا سلسلہ کیسے رک سکتا ہے۔اللہ ملالہ یوسفزئی کو تندرستی عطا فرمائے اور ہمیں شعور دے کہ ہم آپس کی لڑائیوں اور فتنوں پر قابو پا کر مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل جیسے عذاب سے نکل سکیں۔ آمین۔
تازہ ترین