• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرض تمنا …خالد محمود جونوی
کشمیر توجہ چاہتا ہے یہ نعرہ گزشتہ کئی دھائیوں سے ہمارے قلوب وازہان میں رچ بس گیا تھا لیکن گزشتہ ہفتے لندن میں نریندر مودی کی آمد کے خلاف مظاہرہ میں شرکت کیا کی بلکہ یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ کشمیر ہرگز توجہ نہیں چاہتا، ہمارے لیڈروں کے کردار وعمل سے صاف نظر آرہا تھا کہ کشمیرنہیں بلکہ کشمیری لیڈر توجہ چاہتے ہیں،۔ یوں یہ مظاہرہ اسی دن سہہ پہر کو ختم ہوگیا تھا مگر اپنے پیچھے کئی اصلاح طلب پہلو چھوڑ گیا کہ اگر نیتوں میں اخلاص ہو تو اصلاح و بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ یہ مظاہرہ ایسے وقت میں ترتیب دیا گیا تھا جب دولت مشترکہ ممالک کے سربراہان لندن میں کانفرنس کیلئے موجود تھے۔ اتنے عالمی رہنمائوں کی موجودگی میں اپنی آواز ان تک پہنچانے کا یہ ایک سنہری موقع تھا، مقبوضہ کشمیر میں ننھی آصفہ بانو کی اجتماعی آبرو ریزی اور اس کے قتل کو مثال بنا کر پیش کیاجاسکتا تھا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو منظر عام پر آیا ہےوگر نہ اس قسم کی دلخراش داستانیں ہر گھر کا مقدر بنی ہوئی ہیں۔ پھر اس قسم کے مظاہروں میں اگرچہ خالصتان کے لوگ پہلے بھی شامل ہوا کرتے تھے مگر اس بار ہنگامی دولت اور نریندر مودی کی پالیسیوں کا نشانہ بننے والےدیگر کمیونٹیز کے لوگ بھی شامل تھے ۔ عددی لحاظ سے شاید ہم زیادہ تھے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ سارے گروپوں کو ملا کر ہم ایک بھرپور احتجاجی مظاہرہ کرتے، مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہم لوگ ایک ہجوم کا حصہ تھے جسے منظم کرنے میں ہم سے کئی غلطیاں ہوئیں شام کو جب گھر کی راہ لی تو بدگمانیاں ایسی تھیں کہ جو ساتھ چھوڑنے کا نام نہیں لے رہی تھیں کہ آخر یکجہتی کشمیر کے نام پر ہم لوگ عدم یکجہتی کے تماشے کب تک کرتے رہیں گے ۔ ستم تو یہ کہ جو نعرے لگائے گئے اور تقاریر کی گئیں وہ بھی دیسی زبانوں میں تھیں ،بھلا ایسے آپ کس کو پیغام دے سکیں گے۔مظاہرہ میں وزیراعظم آزاد کشمیر اور اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔ راجہ فاروق حیدر نے واضح بھی کیا کہ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عام کشمیری کی حیثیت سے شرکت کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ لوٹن میں دیگر لوگوں کے ہمراہ اور اپنے وزرا کے ساتھ عام کوچ میں سوار ہوکر آئے، یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن سربراہ حکومت ہونے کے ناتے وہ اس مظاہرے کے میزبان ہوتے تو شاید زیادہ بہتر ہوتا ان کے پاس عوامی مینڈیٹ تھا لیکن وہ اس پلیٹ فارم کو بخوبی استعمال نہ کرسکے جس کی اشدضرورت تھی اس کے باوجود ایک بہترین پیغام دیا گیا کہ آزاد کشمیر کی سطح پر اگرچہ ہمارے آپس کے کئی سیاسی ونظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں مگر جدوجہد آزادی کے لئے ہم سب ایک ہیں۔ مصروف دن ہونے کے باوجود لوگ اپنا کام کاج چھوڑ کر گئے مگر واپسی پر ان کے کئی تحفظات تھے۔بنگالی نوجوانوں کی تعداد دو درجن سے زیادہ نہ تھی مگر انہوں نے ساری توجہ اپنے ہاں مبذول کرائے رکھی خالصتان کے لوگوں کے بڑے بینرز آویزاں تھے اور وہ اپنا پیغام اور احتجاج ہم سے کئی گنا بہتر ریکارڈ کروارہے تھے۔ مظاہرے میں کئی شناسا لوگ بھی ملے، اتنے میں ایک خاتون ہماری طرف آئی اور کہا کہ آپ لوگ کس بات کا احتجاج کررہے ہیں جو کچھ ہمیں پتہ تھا اس کے گوش گزار کیا کہنے لگی جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ان کا کوئی بروشر یا دستاویزی ثبوت ؟ یقینا ہمارا جواب نفی میں ہی تھا لیکن ہمارا یہ ستم ظریف دوست جھٹ بولا کہ کوئی دستاویز وغیرہ تو نہیں البتہ بریانی کا یہ ڈبہ ہے تناول فرمائیں، دوسرے لوگوں کو دیکھا کسی تمنا و صلے کی پروا کیے بغیر اپنے اپنے کام میں مگن مگرہم تھے کہ تھکے ہوئے، ہارے ہوئے جذبوں سے عاری نہ کوئی سلیقہ نہ کوئی ڈھنگ ایسے میں دوسرے لوگ ہماری بات کیسے سنیں گے۔ آج کل ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، کاش اس قسم کے مناظر ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں تک نہ پہنچیں جب ہمارے اس قسم کے روئیے وہ دیکھیں گے تو ان کی خواہ مخواہ حوصلہ شکنی ہوگی۔ مظاہرہ کا دن شاید موسم گرما کا پہلا گرم ترین دن تھا جب سورج کی تپش تیز ہوئی تو سائے کی تلاش میں ایک مجسمے کے نیچے جاکھڑا ہوا جب نظریں اوپر اٹھائیں تو یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ مجسمہ جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما جناب نیلسن منڈیلا کا ہے دل ہی دل میں اس عظیم شخص کو سلام پیش کیا اور یہ خواہش حسرت میں بدل گئی کہ کاش نیلسن منڈیلا کے مجسمے کی بجائے وہ خود موجود ہوتے تو ان سے اپنے لیڈران کرام اور کمیونٹی کے کرتا دھرتا لوگوں کی کہلوا سکوں کہ جو لوگ آزادی جیسے اعلی وارفع مقصد کیلئے جدوجہد کرتےہیں ان معاملات ایسے نہیں  ہوتے جو ستر سال میں ڈھنگ کا کوئی ایک بھی مظٓاہرہ نہ کرسکیں۔
تازہ ترین