• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن میں کشمیریوں کے مظاہرے پر تھریسامے کا ردعمل

تحریر:لائق علی خان…وٹفورڈ
18اپرل 2018لندن کی تاریخ میں اہم ترین دن ہے، اس دن برطانیہ بھر کے کشمیریوں نے دولت مشترکہ کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف برطانیہ کی پارلیمنٹ کے سامنے شدید مظاہرہ کیا۔ کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی۔ اس مظاہرے میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور ممبر اسبملی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی اور برطانیہ میں تحریک کشمیر کے راجہ فہیم کیانی اور دیگر شخصیات شامل تھیں جبکہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر لوٹن سے اپنے جیالوں کے ہمراہ لندن پہنچنے۔ اس طرح ان کی کابینہ کے وزراء نے بھی بڑے جوش و خروش سے مودی کے خلاف مظاہرے میں حصہ لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں مظاہرہ مثالی تھا، کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھل کر اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور جب برطانوی پارلیمنٹ کے باہر کشمیری مظاہرہ کررہے تھے تو اس وقت برطانوی ایم پی افضل خان نے مسئلہ کشمیر پر تقریر کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم تھریسامے کو پارلیمنٹ کے باہر کشمیریوں کے عظیم اجتماع کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا، برطانوی حکومت نے اس وقت تک مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں کیونکہ مسئلہ کشمیر برطانیہ کا پیدا کردہ ہے۔ آج پاکستان و بھارت ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ایک ذرا سی چنگاری دونوں ملکوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دے گی۔ ایم پی افضل خان کے سوال پر برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرنے کے بجائے بڑی ڈھٹائی، غصہ بھری نظروں سے کہا کشمیر ایشو دونوں کا باہمی مسئلہ ہے۔ دونوں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ برطانوی حکومت اس مسئلے کے حل میں کوئی مدد نہیں کرسکتی اور اس طرح برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ سال بھارت کے دورے کے دوران دہلی ائرپورٹ پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر شملہ معاہدے کے تحت حل کریں۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے اپنا پالیسی بیان دے کر بھارت نوازی کرتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ کے باہر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف ہونے والے مظاہرے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔ مگر کیا وہ بتا سکتی ہیں کہ اس نے پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر شام پرامریکہ، فرانس کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے شام پر حملہ کیوں کیا؟ طالبان ہوں یا اسامہ بن لادن، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اس کی اتحادی فوجوں نے افغانستان، ایران، عراق، شام، لبنان، سعودی عرب میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بھی کیا کشمیر کی طرح ان کا اندرونی مسئلہ ہے؟ وہاں امریکہ، برطانیہ و الائیڈ فورسز اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر جارحیت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کیا مغرب کی یہی جمہوریت اور انصاف پسندی ہے۔ ہماری کشمیری جماعتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے برطانوی ممبران پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کرتی ہیں، مسئلہ کشمیر پر قرار دادیں پاس ہوتی ہیں، کیا کیا نہیں ہوتا۔ مگر دلی ہو یا برطانوی حکومت دور است راستے پر گامزن ہیں۔ لندن ملین مارچ ہو، مودی کے خلاف مظاہرہ ہو یا دیوار برلن مارچ ہو، کشمیری جماعتیں عالمی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کشمیر پالیسی اختیار کریں۔ بھارتی وزیراعظم کے دورہ برطانیہ کے دوران ویمبلے سنٹر کے قریب مودی کے خلاف شدید مظاہرہ کیا تھا مگر کچھ تبدیلی نہیں آئی۔ کشمیر میں حالات بھی آج انتہائی کشیدہ ہیں، یہ درست ہے کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کیلئے یہ مظاہرے ضروری ہیں مگر کشمیر کی دوطرفہ قیادت اقوام متحدہ سے رجوع کرے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک جنگ بندی لائن کے دونوں اطراف کے عوام کی سہولت کے لئے تمام قدرتی راستے کھولنے کے لئے پاکستان، بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ بلکہ یہ زیادہ موزوں ہے کہ خطے میں امن کے قیام کیلئے اقوام متحدہ سہ فریقی کانفرنس کا اہتمام کرے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو کشمیر پر صحیح خارجہ پالیسی مرتب کرے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی خارجہ پالیسی لالی پاپ تک محدود ہے۔ دولت مشترکہ کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دولت مشترکہ کے اندر اور باہر مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہ کیا۔ صرف وزیراعظم تھریسامے سے آن سائیڈ لائن مسئلہ کشمیر پر بات کرنا دھوکا دہی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف دولت مشترکہ کے اجلاس کے موقع پر برطانوی سیکرٹری خارجہ سے مسئلہ افغانستان اور خطے کی صورتحال پر بات چیت کرنے کے بعد دوسرے دن پاکستان چلے گئے حتیٰ کہ برطانیہ میں کشمیر انٹرنیشنل وائس کے رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بات چیت کے لئے پاکستان ہائی کمیشن کو خط لکھا کہ ہماری ملاقات وزیراعظم پاکستان سے کرائی جائے مگر خط کا تاحال جواب نہیں دیا گیا۔ لندن مظاہرے کے دوران بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے مسئلہ کشمیر پر سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان مخالف تنظیموں کو لا کر کھڑا کردیا۔ وہ پاکستان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ان مظاہرین کا رویہ قابل مذمت ہے جو پاکستان کے خلاف منفی سوچ رکھتے ہیں۔ لندن اینٹی مودی مظاہرے کے بعد ہماری صفوں کے اندر عدم اتحاد کی صورت دیکھنے کو ملی۔ برطانیہ میں ہر کشمیری سوچنے پر مجبور ہے۔ کیا کشمیریوں کو آئندہ اس طرح کے مظاہروں میں جانا چاہئے۔ ان کا اصرار ہے کہ اگر وہاں مظاہرے کے لئے جگہ بک کرائی گئی تھی وزیراعظم سمیت کشمیری قیادت مختصر وقت قیام کرنے کے بعد وہاں سے کیوں چلے گئے؟ حالانکہ سکھ کمیونٹی اور کشمیری وہاں پارلیمنٹ کے سامنے والے پارک میں موجود تھے۔ اتنی جگہ خالی تھی وزیراعظم آزاد کشمیر اور اپوزیشن قیادت عوام کو ایک جگہ جمع کر سکتے تھے مگر ایسا نہ ہوا جبکہ عالمی میڈیا وہاں موجود تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری کشمیری قیادت جو پاکستان سے آئی ہے مگر وہ کشمیر کی صورتحال جاننے کے باوجود کشمیر پالیسی صحیح طرح واضح نہیں کرتے اور نہ ہی لندن میں کشمیر ہاؤس موجود ہے جہاں کوئی پروگرام طے کرنے سے قبل سیاسی جماعتیں مشاورت کرسکیں۔ کشمیری قیادت سیاسی و سفارتی محاذ پر انتہائی کمزور ہے اگر یہ خامیاں دور نہ کی گئیں تو ہم برطانیہ میں نوجوان نسل کو کیا پیغام دیں گے۔ دوران مظاہرہ پروفیسر لیاقت علی خان (مرحوم) کے دوستوں نے ان کی کمی شدت سے محسوس کی۔ انہوں نے کہا آج وہ اگر ہمارے درمیان ہوتے ہم آپس میں مشاورت کرتے اور زیادہ منظم ہوتے۔ ان کے دوستوں نے کہا تحریک آزادی کشمیر کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔ میں یہاں بلاامتیاز بشیر رٹوی، چوہدری شریف، ریاض بٹ، ملک لطیف، صابر گل، اقبال راٹھور، امجد امین بوبی، راجہ اسحاق، ساجد جنجوعہ، نواز مجید، شیراز ایڈووکیٹ، حمید بٹ، شاہپال، مسعود رانا ملک، لارڈ نذیر، فہیم کیانی، عبدالرشید ترابی و دیگر وہ شخصیات ہیں جنہوں نے تحریک کشمیر میں ہمیشہ فرنٹ رول کا کردار ادا کیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں، آپس میں اتحاد، اتفاق و نظم کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ایک باشعور تعلیم یافتہ قیادت ہی قوم کی بہترین رہنمائی کرسکتی ہے ورنہ آنے والا وقت ہم سے سوال کرے گا ہم نے 70سال کے عرصے میں کیا کھویا، کیا پایا۔
تازہ ترین