• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خواجہ محمد سلیمان…برمنگھم
ولور ہمپٹن کے سابق ممبرآف پارلیمنٹ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، نے نصف صدی پہلے برمنگھم کے ایک ہوٹل میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے عندیا دیا تھا کہ برطانیہ میں نسل پرستی کے حوالے سے گوروں اور کالوں میں جنگ ہوگی اور خون کے دریا بہیں گے اس لئے حکومت رنگدار لوگوں کو واپس اپنے ملکوں میں بھیجنے کا پررگرام بنائے، اینک پائول کی اس تقریر نے اس ملک میں نسل پرستی کو خوب عروج دیا اور نسل پرستوں نے کالے تارکین وطن پر ہر قسم کے حملے شروع کردیئے اینک پائول کو نسل پرستانہ تقریر کرنے پر ٹوری پارٹی سے نکال دیا گیا اور پھر وہ آئر لینڈ سے ممبر منتخب ہوئے، ستم ظریقی یہ ہے کہ 1948ء میں یہی اینک پائول بطور وزیر ان ملکوں میں گئے جہاں برطانیہ نے حکومت کی تھی اور انہوں نے مقامی آبادی کو یہ دعوت دی کہ وہ برطانیہ آکر اس کی تعمیر و تقری میں ہاتھ بٹائیں اس دعوت میں بہت سے تارکین وطن آئے جنہوں نے اس ملک کی معیشت کو سنبھالا اور پبلک سروسز سے لے کر نیشنل ہیلتھ سروس میں دن رات محنت کی۔ برمنگھم میں دوسری جنگ عظیم کے بعد برصغیر سے بھی تارکین وطن آئے اور یہاں کی فیکٹریوں اور فونڈریوں میں بطور مزدور کام کیا اور اس محنت کے نتیجے میں آج برمنگھم ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے برطانوی معاشرے میں آکثر سیاست دان مسائل حل کرنے کے بجائے تارکین وطن کو نشانہ بناتے ہیں اور نسل پرستی کو ہوا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نیشنل فرنٹ اور برٹن فرس جیسی نسل پرست تنظیمیں جنم لیتی ہیں۔ انتہا پسندی کا انجام ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا پائیداری میانہ روی میں ہے اس دنیا میں مختلف نسلوں کے انسان بستے ہیں اور یہ اس دنیا کی خوبصورتی ہے اگر یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں گے تو دنیا میں امن ہوگا۔ اگر یہ نسلیں ای دوسرے کے خلاف نفرتیں پھیلائیں گی تو نتیجہ وہی ہوگا جو انسانی تاریخ میں گاہے بگاہے ظاہرہوا ہے ۔ اسلام نسل برتری کی جڑ کاٹ دی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں یعنی انسانیت میں ہم سب ایک ہیں، رنگ و نسل کا جدا ہونا پہچان کیلئے ہے اور بلندی کا معیار تقویٰ اور پرہیز گاری ہے لیکن اگر مسلمانوں کی اجتماعی حالت دیکھی جائے تو ان میں بھی قومی اور نسلی فخر جڑ چکا ہے مثلاً عرب ممالک میں پاکستانی مسلمانوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے اور گوروں کی عزت کی جاتی ہے حال ہی میں ایک عرب وزیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستانیوں نے ہمارا عرب کلچر خراب کیا ہے اب اس وزیر سے کوئی پوچھے کہ نصف صدی پہلے ریگستان کے علاوہ تمہارے پاس کیا کلچر تھا، پاکستانیوں نے آکر عرب ممالک میں محنت مزدروی کی کے تمہاری ترقی میں ہاتھ بٹایا لیکن جب نسلی برتری کی بات ہو تو انسان دوسری نگاہ سے دیکھتا ہے۔بہرحال اینک پائول، ہٹلر، ڈونلڈ ٹرمپ ، نریندر مودی نے انسانیت کو لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے ظالموں کا انجام کل بھی وہی تھا ور آج بھی تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں، ان جیسے کرداروں پر روزانہ لعنتیں ہی پڑتی ہیں ان کی کوئی بھی تعریف نہیں کرتا۔
تازہ ترین