• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں کوئٹہ اور مستونگ کے دو مقامات پر ایک گھنٹے میں دو خود کش حملوں کے دوران دس سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت اور14کا زخمی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دہشت گردوں نے عوامی مقامات اور سول اداروں کے بعد اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات اور اہلکاروں کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے جو ریاست سے ٹکرائو کے حوالے سے عسکریت پسندی کا ایک انتہائی خطرناک رخ ہے اور حکومت کو اس کی بیخ کنی کے لئے اپنی حکمت عملی میں موثر تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔ اطلاعات کے مطابق منگل کو کوئٹہ میں ایئرپورٹ روڈ پر صدر آزاد کشمیر کی آمد کے سلسلے میں سیکورٹی ڈیوٹی دینے کے بعد بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ایک ٹرک میں واپس جا رہے تھے کہ ایک خود کش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل ٹرک سے ٹکرا دی جس سے زور دار دھماکہ ہوا اورسات اہلکار شہید اور5زخمی ہو گئے۔ خود حملہ آور کے جسم کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ مستونگ کے علاقے دشت میں ہوا جہاں دو خود کش حملہ آوروں نے ایف سی کے کیمپ میں گھسنے کے لئے ریلوے پھاٹک پر واقع چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا۔ دو طرفہ فائرنگ میں3اہلکار شہید اور 6زخمی ہوئے جبکہ حملوں آورں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ حملے کی ذمہ داری حزب الاحرار نے قبول کر لی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات کے بعد فوج، ایف سی اور لیویز کی کارروائیوں کے نتیجے میں صورت حال کافی بہتر ہو رہی ہے۔ ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور مکران میں کئی فراری کمانڈروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے مکمل خاتمے کے لئے ابھی مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے خاص طورپر ایف سی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی چیک پوسٹوں، گشتی پارٹیوں اور قافلوں پر حملے روکنے کے لئےسیاسی و مذہبی جماعتوں کوبھی اس ضمن میں ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مشترکہ کوششوں کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔

تازہ ترین