• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

از۔۔مکافات نگر
انسانیت ہاؤس
نزد حبیب جالب چوک
مساوات پورہ
اوئے انارکسٹا ، میں خیریت نا ل پہنچ گیا تے بڑے مزے وچ ، اطلاع دینے میں دیر ہوئی کہ یہاں آتے ہی بچھڑے ہوؤں سے ملاقاتوں ، گلے شکوؤں اور دعوتوں میں ایسے پھنسا کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا ، شام ڈھل چکی ، حبیب جالب کے گھر محفل سج چکی ، میں ایک طرف بیٹھا تجھ سے مخاطب ، کل تمہارا ذکر ہوا تو حبیب جالب نے بتایا کہ’’ وہ لائلپور میں تمہارے ابا کے گھر دو اڑھائی سال رہے ، کہہ رہے تھے تب تم چھوٹے تھے ‘‘، میں نے کہا’’ اگر آپ اسی وقت اس کا گلا دبا دیتے تو دنیا اس فسادی سے بچ جاتی ،خیر اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ ، حبیب جالب کی سنو ، چند دن پہلے میاں شریف سے کہنے لگے ’’کتنا سچا جملہ ہے good afternoon، مطلب اچھا وقت (ن) لیگ کے بعد ہی ‘‘،میاں شریف کنی کترا کر جانے لگے تو یہ رستہ روک کر دوبارہ بولے ’’ پاکستانی قوم کی قسمت کے فیصلے آپ کے بچوں سے کروانا ایسے ہی جیسے پنڈ کے موچی سے موبائل فون ٹھیک کروانا ‘‘، کل شام یہ شوشہ بھی جالب صاحب نے ہی چھوڑا کہ’’ ان دنوں بجلی اور لوڈشیڈنگ پر لیگی ایسے touchyہیںکہ ایک لیگی کو یو پی ایس خریدتے جب تحریک انصاف کے کارکن نے دیکھ لیا تو لیگی جھٹ سے بولا ’’یہ میں اپنے لئے تھوڑا خرید رہا ، یہ تودوست کو افغانستان بجھوانا ہے ‘‘۔
حبیب جالب کی آجکل نورجہاں ،استاد دامن اور دلدار پرویز بھٹی سے گاڑھی چھن رہی ، ہاں ایک بار تیرا ذکر چھڑ نے پرملکہ ترنم اپنے مخصوص اسٹائل میں بولیں ’’بابا چشتی نے ملایا سی ایس منڈے نوں میرے نال ‘‘ اور سنو!یہاں منور ظریف اور دلدار پرویز بھٹی نے سب کو آگے لگایا ہوا ، چند دن پہلے بھٹو صاحب کے ہاں چائے سموسے کھاتا دلدار بھٹی بی بی کو مخاطب کر کے بولا ’’پاکستان میں پی آئی اے کے ساتھ اسٹیل مل فری مل رہی ہے جبکہ یہاں دوسموسوں کے ساتھ ایک تولے سے بھی کم چٹنی ،یہ زیادتی ہے ‘‘، ویسے دلدارکہہ ٹھیک رہا تھا کیونکہ بینظیر بھٹو یہاں بھی ایسی کفایت شعار کہ بے اختیار وہ شیخ یا دآجائے جو اپنی بیوی کو گھمانے نکلا اور قبرستان جا پہنچا ،بیوی نے حیران وپریشان ہو کر جب کہا ’’یہ کہاں لے آئے ،یہ کوئی جگہ ہے بھلا گھومنے کی ‘‘ تو شیخ نے کہا’’ بے وقوفے یہاں آنے کیلئے لوگ مرتے ہیں اورتم نخرے کر رہی ہو ‘‘۔
اب منور ظریف کی سن لو ، ایک روز ایوب خان اور حمید گل کی دُکھی گفتگو سن کر بولا’’ آپ جیسے لوگ تو گانے بھی اتنے دُکھی سنیں کہ پاس بیٹھا بندہ بھی آپ کے محبوبوں کو مس کرنے لگ جائے ‘‘ ، ایک روز پی ایس ایل میچ میں کامران اکمل کی فیلڈنگ دیکھ کر منور ظریف نے کہا ’’جب باپ اپنے بچے کو ہو ا میں اچھالتا ہے تو بچہ اس لئے مسکرارہا ہوتا ہے کہ اسے معلوم ہے،نیچے باپ کھڑا ہے کامران اکمل نہیں ‘‘ ، منور ظریف ایک دوپہر ولی خان کو یہ سناتا ملا ’’ آپ کے لوگوں نے بھی دنیا میں اتنی دولت اکٹھی کر لی کہ گھر میں عزت کیلئے جگہ ہی نہیں بچی ‘‘، ایک شام عبدالحفیظ کارداراور ڈاکٹر ظفرالطاف کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر یہ کہنے لگا ’’ آپ یہاں بیٹھے ہیں جبکہ پاکستان میں وہ حضرات کرکٹ چلا رہے جنہیں کبھی صرف اس شرط پر کرکٹ کھلائی جاتی تھی کہ اگر ’’بال نالی میں گئی تو تم لاؤ گے ‘‘ جس روز چینی بھائیوں نے ہماری پولیس کے کھنے سیکے ،اس دن منور ظریف بولا ’’ چونکہ ہم علم سیکھنے چین نہیں گئے لہٰذا ہمیں سکھانے کیلئے چینی خود آگئے ‘‘ ، ابھی پرسوں ہی جب ننھا ( خلاف توقع کافی مذہبی ہو چکا ) نے پکا سا منہ بنا کر کہا ’’ کیا خوبصورت مذہب ہے ہمارا کہ بیوی کی طرف دیکھنا بھی نیکی ‘‘ تو منور ظریف بولا’’مگر یاد رہے بیوی اپنی ہی ہونی چاہئے ‘‘ اور ابھی کل ہی جب میں استاد دامن ،فیض صاحب اور احمد فراز کے ساتھ بیٹھا ہوا تو کہیں سے یہ آیا اور آتے ہی کہنے لگا ’’مبارک ہو ، ایک پاکستانی نے پانی میں 90منٹ تک سانس روک کر عالمی ریکارڈ قائم کرد یا اور اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی بولتا ، کہنے لگا ’’ اس کا جنازہ شام 4بجے ہوگا ،سب شریک ہو کر ثواب ِ دارین حاصل کریں‘‘۔
لو دیکھو ، میں کن باتوں میں کہاں سے کہاں نکل گیا لیکن کیا کروں ایک تو پھر سے آئی جوانی، اوپر سے خالص نعمتیں ( یہاں خالص نعمتوں سے میری مراد وہی ہے جو تم سمجھ رہے ہو) اور پھر اتنی لذیذ محفلیں ، خیر یہاں کی باقی مزیدار باتیں پھر سہی ، ابھی تجھے بتاؤں کہ میں نے اپنے جنازے میں ان کو بھی دیکھا ،جنہوں نے عمر بھر حال نہ پوچھا ، دُ کھی سا منہ بنا کر جب یہ میرا چہرہ دیکھ رہے تھے تو میں بمشکل اپنی ہنسی روک رہا تھا مطلب زندگی میں کلام نہ کرنا اور مرنے کے بعد منجی (چارپائی ) ہلا ہلا کر کہنا ’’یا ر بول ۔۔۔ ہن بولدا کیوں نئیں ‘‘ اسی طرح کچھ وہ لوگ جنہیں جنازے میں ہونا چاہئے تھا وہ نظر ہی نہ آئے اور پھر یہاں آنے کے بعد ایک دن جب میں میر خلیل الرحمان او رمجید نظامی صاحب کو سلام کرنے گیا تو وہاں اخبارات دیکھتے دیکھتے ایک ایسے مضمون پر نظر پڑی جو میرا نہیں لیکن میرے نام سے چھپا ہوا تھا، اس دونمبری پر میں تو نجانے کب تک دُکھی رہتا مگر بھلاہو صادقین کا ،جس نے میر ادُکھ سن کر ہنستے ہو ئے کہا ’’تم ایک مضمون پر پریشان ہو،مجھے دیکھو پاکستان میں جو کچھ میرے نام سے بیچا اور خریدا جا رہا اس کا 80فیصدمیرے مرنے کے بعد بنا ‘‘۔
پیار ے ا نارکسٹ ۔۔۔یہاں ایک طرف نصرت فتح علی خاں (پیجی ) تجھے اکثر یاد کرے تو دوسری طرف ننھا اور وحید مراد سے درپن تک تیری باتیں کریں ، ایک طرف مسعود داڑھو تیرے قصے سنائے تو دوسری طرف پرنس پکو،مقبول ملک ، عباس اطہر (شاہ جی) تیرے کالے قول رٹائیں اور پھر اب تیری والدہ کے آنے کے بعد تمہارے والد بھی لائل پوری گروپ میں بیٹھ کر تیرا ذکر فخر سے کرنے لگ گئے ، مزے کی بات تو یہ کہ آج کل تجھے سن اور پڑھ کر جہاں بھٹو صاحب خوش ہور ہے ہوں ،وہاں ضیاء الحق بھی انجوائے کرتے ملیں ، پتا نہیں دونوں کو غلطیوں کا احساس یا دونوں اپنے جانشینوں سے ناخوش، خیر بتا یہ رہا تھا کہ بعض اوقات یہاں تمہارا اتنا ذکر ہے کہ یہ تشویش لاحق ہو جائے کہ کہیں ۔ ۔ ۔ اللہ تجھے لمبی زندگی دے اور ابھی ہمیں تمہارے شر سے محفوظ رکھے ، تمہیں یاد ہے کہ ایک بار’’ روزنامہ صداقت‘‘ میں چند دن تم نے میرے نام سے کالم لکھے ، تجھے بتاؤں، جتنا فیڈ بیک مجھے ان کالموں کا ملا ، وہ کبھی مجھے اپنے لکھے کا لموں پر بھی نہ ملا، میرا قلم ہار گیا ، تیرا گنڈاسہ جیت گیا ، یہ بھی بتاتا چلوں کہ شروع شروع میں یہاں یہ سوچ کر دل دُکھی ہو جاتا کہ اپنی سوانح عمر ی مکمل نہ کر پایا مگر جب ایوب خان سمیت بہت سارے بڑوں کو آپ بیتیاں لکھ کر یہاں پچھتا تے دیکھا ، تب سے میں مطمئن ، ایک آدھ دفعہ دل چاہا کہ لاہور آکر تجھے ،مصطفیٰ قریشی ، کاشی،گڑیا اور بیگم سے ملوں ،تھلیسیمیا سینٹر جا کر بچوں کے ساتھ وقت گزاروں مگر پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لی کہ آخر کار تم سب نے یہیں آنا ، مطلب آج نہیں تو کل ملاقات ہونے ہی والی ہے، یہاں ان دنوں ایک طرف جنرل ضیاء او رحمید گل نے اندرا گاندھی اور شیخ مجیب کو آگے لگا رکھا دوسری طرف بھٹو صاحب نے ضیا ء الحق سے ائیر مارشل اصغر خان کو نشانے پر رکھا ہوا ، ایک طرف غالب او راقبال کے ہاں مشاعرے دوسری طرف نوابزادہ نصر اللہ کے ہاں سیاسی محفلیں ، پاکستانی جمہوریت اور حقے کو مسلسل missکرتے نوابزادہ نصر اللہ صاحب کی صحت اتنی اچھی ہو چکی کہ دو ر سے آتا دیکھ کرپتا ہی نہ چلے کہ نوابزادہ صاحب آرہے ہیں یا یحییٰ خان ، میرے گنڈاسے والے بابو،جاتے جاتے آخری بات گوکہ آجکل میاں صاحب کے منہ سے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا سن کر بھٹو سے ضیاء اور بی بی سے جونیجو تک سب کا ہاسہ نکل جائے لیکن مجھے وہ سردار یاد آئے کہ جسے جرم ثابت ہونے پر جب جج نے سزا سنائی تو وہ بولا’’ جے بچپن وچ ماں دی گل سنی ہُندی تے اج ایہہ دن نہ ویکھنا پیندا‘‘ یہ سن کر جج نے پوچھا ’’کیا کہتی تھی تمہاری ماں ‘‘ سردارکا جواب تھا ’’ جدوں ماں دی گل سنی ہی نئیں تے فیر کی دساں ‘‘ ۔
ڈھیر ساری محبت
بہت سارا پیار
تمہارا منوبھائی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین