• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حق ِحاکمیت کو جوازبخشنے کے لئے حکمرانوں کاکسی مقبرے پرحاضری دینا اور سیاسی اشیر باد حاصل کرنا ہرگز اچنبھے کی بات نہیں ۔ہر ملک میں کوئی ایسا علامتی مقام ہوتا ہے جہاں چنیدہ لوگ جاتے اور پھول چڑھاتے ہیں ۔ترکی میں یہ حیثیت مصطفیٰ کمال پاشا المعروف اتاترک کے مقبرے کو حاصل ہے تو پاکستان میں محمد علی جناح یعنی قائد اعظم کے مزار کو مقام ِ اشیر باد (Blesssing point)کا درجہ دیا گیا ہے۔بعض لوگ حصولِ منصب سے پہلے جا کر مزارِ قائد پر گڑگڑاتے ہیں تو بعض افراد برسراقتدار آنے کے بعد قائد اعظم کے مزار پر جا کر پھول چڑھاتے ہیں ۔صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تو پہلے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سمیت ان روحانی شخصیات کے دربار میں حاضر ہوئے جن کی اشیر باد سے یہ کامیابی ملی اور پھر کراچی جا کر مزار قائد پر فاتحہ پڑھی ۔گزشتہ ہفتے جس اہم شخصیت نے مزار قائد پر جا کر حاضری دی اور پھول چڑھائے ان کا نام شہباز شریف ہے۔ چونکہ وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور نوازشریف کے جانشین ہیں اس لئے انہوں نے ضروری سمجھا کہ وزارت ِعظمیٰ کی خلعت فاخرہ زیب تن کرنے سے پہلے ہی بابائے قوم سے اشیر باد حاصل کر لی جائے۔ مزارِ قائد پر حاضری کے وقت مشاہد حسین سید جیسی نابغہ روزگارشخصیات ان کے ہمراہ تھیں مگر شاید کسی نے انہیں یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ مزارِ قائد تو سیاسی اشیر باد کے حصول کا محض علامتی مرکز ہے ،ورنہ حقیقی بلیسنگ کے مقامات تو کہیں اور ہیں ۔اگر محض بابائے قوم کی اشیر باد سے کام چلتا تو عمران خان جنہوں نے مزارِ قائد جا جا کر اپنے جوتوں کی ایڑیاں گھِسا دیں ،اب تک وزارت ِعظمیٰ کا لڈو کھا چکے ہوتے ۔پنوں نے سسی ،رانجھے نے ہیر ،فرہاد نے شیریں اور رومیو نے جولیٹ کے لئے اتنا کشٹ نہیں کاٹا ہو گا جتنے جتن ہمارے ہر دلعزیز کپتان نے وزارت عظمیٰ کے حصول کے لئے کئے ہیں ۔مزارِ قائد تو کیا ہمارے کپتان نے پاکپتن میں بابا فرید کے مزار پر بھی حاضری دی ،ہر پیرفقیر کے سامنے جھولی پھیلائی لیکن وزیر اعظم بننے کی اُمید بر نہ آئی ۔
کپتان کے جنون کو دیکھ کر مجھے شیکسپیئر کے ڈرامے ’’میک بیتھ ‘‘ کا مرکزی کردار ڈیوک میک بیتھ یاد آتا ہے جس پر بادشاہ بننے کی دھن سوار ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گزرنے اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ۔شیکسپیئر کے اس ڈرامے پر تین سال پہلے فلم بھی بنی اور بے حد مقبول ہوئی۔میک بیتھ اسکاٹ لینڈ کے بوڑھے بادشاہ ڈنکن کا سپہ سالار اور قریبی عزیز ہے۔ بادشاہ ناروے کے حمایت یافتہ باغیوں کا سر کچلنے کے لئے میک بیتھ کو جنگی مہم پر روانہ کرتا ہے۔اس مہم سے واپسی پر جنرل میک بیتھ ایک اور فوجی افسر جنرل بینکو کے ہمرا صحرا سے گزر رہا ہوتا ہے تو اس کا سامنا تین جادوگرنیوں (جنہیں پیرنیاںبھی کہا جا سکتا ہے)سے ہوتا ہے ۔ایک جادوگرنی میک بیتھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے ’’مبارک ہو نواب آف گلیمس‘‘میک بیتھ حیران ہوتا ہے کہ اسے کیسے پتہ میں اس علاقے کا نواب ہوں ۔پھر دوسری ہنس کر کہتی ہے ــ’’ڈیوک میک بیتھ !نواب آف کاڈرو ،مبارک ہو ‘‘ میک بیتھ کی حیرانی پریشانی میں بدل جاتی ہے کیونکہ کاڈور کی نوابی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔تیسری جادوگرنی نے تو ایسی خوشخبری سنائی کہ میک بیتھ کا دل ہی جیت لیا ۔اس نے کہا ’’آئو ہم ملکر اسکاٹ لینڈ کے ہونے والے بادشاہ کو مبارکباد دیں ‘‘اس کے بعد میک بیتھ کے دوست جنرل بینکو کی باری آئی جس کے بارے میں ان جادوگرنیوں نے کہا کہ وہ میک بیتھ سے کم مگر زیادہ خوش نصیب ہے ۔اگرچہ وہ کبھی بادشاہ نہ بن پائے گا مگر اس کا بیٹا ایک دن بادشاہ بنے گا ۔یہ کہہ کر وہ جادوگرنیاں غائب ہو گئیں اور میک بیتھ سوچ میں پڑ گیا ۔آخری بات اس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ جب تک بادشاہ اور اس کے بیٹے زندہ ہیں ،وہ کیسے بادشاہ بن سکتا ہے ؟وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ شاہی قاصدآپہنچا اور خوشخبری دی کہ بادشاہ نے فتوحات سے خوش ہو کر میک بیتھ کو نواب آف کاڈرو بنا دیا ہے ۔ان جادوگرنیوں کی پہلی بات پوری ہوئی تو اسے یقین ہو گیا کہ دوسری بات بھی ضرور پوری ہو گی ۔لمبی کہانی ہے اور خلاصہ یہ ہے کہ میک بیتھ رات کے اندھیرے میں بادشاہ ڈنکن کا خون کر دیتا ہے ،اس کے بیٹے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں ،قتل کے الزام میں محافظوں کے سر تن سے جدا کر دیئے جاتے ہیں اور میک بیتھ کے بادشاہ بننے کا خواب پورا ہو جاتا ہے۔
یہ پرانے زمانے کی کہانی ہے جب بادشاہ ہوا کرتے تھے ،اب تو بادشاہ گروں کا دور ہے اور قتل بھی یوں رات کے اندھیرے میں خنجر کی نوک سے نہیں ہوتے بلکہ دن کے اجالے میں اپنے مخالفین کو سیاسی فنا کے گھاٹ اتار کر میک بیتھ کو آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ہاں البتہ اب بھی سیاسی لاشوں پر قدم رکھتا ہوا میک بیتھ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسے پچھتاوا ضرور ہوتا ہے ،ڈرائونے خواب راتوں کا سکون برباد کر دیتے ہیں اور جب وہ ماضی کی ان غلطیوں کا ازالہ کرنے کا سوچتا ہے تو بادشاہ گروں کے ایما پر کوئی نیا میک بیتھ اسے اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کر دیتا ہے۔عمران خان ہمارے عہد کا میک بیتھ ہے جو بہت تیزی سے منزل کی جانب بڑھ رہا ہے ۔اسے یقین ہے کہ ’’سیاست گروں ‘‘ اور ’’جادوگرنی‘‘ کی پیشگوئی سچ ثابت ہو گی اور اس بار وہ وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو جائے گا۔ 30اکتوبر2011ء کو یہی مینار پاکستان تھا جہاں ایک تاریخی جلسے سے عمران خان کی سیاسی کامیابیوں کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ۔اور اب 29اپریل 2018ء کو اسی مینار پاکستان پر ایک اور تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اگرچہ پی ٹی آئی کے ورکر یہ شکوہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ جب بھی ہم سوچتے ہیں کہ تاریخ رقم ہونے کو ہے وہ کپتان کی کسی نئی شادی یا طلاق کی تاریخ ثابت ہوتی ہے ۔خدا نہ کرے ایسا ہو ۔بتایا جا رہا ہے کہ اس جلسے میں سیاسی مخالفین کے چند بڑے بُرج الٹ جائیں گے ،کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ دو درجن کے قریب بڑی وکٹیں گر سکتی ہیں ۔ان میں سے بیشتر وکٹیں دراصل پہلے سے گر چکی ہیں ،البتہ ان کا باقاعدہ اعلان اس جلسے کے موقع پر ہو گا ۔
شہبازشریف کے برعکس عمران خان مزار قائد سے رسمی اور علامتی نہیں بلکہ طاقت کے اصلی مراکز سے حقیقی اشیر باد حاصل کر چکے ہیں ۔ان کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ اب عمران خان کے وزیراعظم بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اس بار تحریک انصاف الیکٹیبلز کے زور پر انتخابات میں پہلے کی نسبت زیادہ نشستیں لینے میں تو کامیاب ہو جائے گی اور ممکن ہے کہ آئندہ حکومت پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ملکر بنائیں اور اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگا دیا جائے لیکن وزیر اعظم عمران خان نہیں بلکہ کوئی عبدالقدوس بزنجو اور صادق سنجرانی جیسا شخص بنتا دکھائی دے رہا ہے گویا عمران خان کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہو جائے گا ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین