خود پسندی ایک عجیب و غریب ذہنی مرض ہے۔ اس واہمے کا شکار کوئی فرد ہو، ادارہ ہو یا قوم یہ لا حاصل تعلّی اُس کا بیڑہ غرق کر کے ہی جاتی ہے۔ کوئی اگر کسی کے آگے جھکتا ہے چاہے وہ پتھر ہی ہو آپ اس پر لاکھ تنقید کر لیں کم از کم اُس جھکنے والے کے اندر عاجزی و انکساری کے اوصاف حمیدہ ضرور پیدا ہونے چاہئیں اس کے برعکس اگر کوئی اس زعم میں مبتلا ہو جائے کہ میں تو اس مقامِ عظمت پر فائز ہو چکا ہوں جہاں ’’انا ولا غیری‘‘ کے تحت دوسرے میرے سامنے سرنگوں ہوں تو نتیجہ سوائے ابلیسی انا اور جعلی اکڑ کے اور کچھ نہ نکلے گا۔ تاریخی طور پر اگر ہم اقوامِ عالم کا جائزہ لیں تو خود پسندی کے رویے کی شکار اقوام و شخصیات انسانی تہذیبی سفر میں بجائے ترقی کے تنزلی کا باعث بنی ہیں۔
افراد و اقوام کے ادوارِ زوال کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اصل ایشوز کو چھوڑ دیتے ہیں اور نان ایشوز میں الجھے رہتے ہیں۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنی یہودی قوم کو ان کے دورِ زوال میں یہی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ تم لوگ ہاتھی کو تو نگل جاتے ہو جبکہ مچھر کو چھاننے بیٹھ جاتے ہو۔آج یہ درویش اپنی قوم اور اس کے اداروں کی کارکردگی پر غور کرتا ہے تو اُسی جعلی تفاخر اور جھوٹے گھمنڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم امانت، صداقت یا شجاعت کا سبق پڑھیں نہ پڑھیں لیکن دعویٰ یہ ہے کہ لیا جائے گا ہم سے کام دنیا کی امامت کا۔ کافر تو شمشیر پر بھروسہ کرتا ہے جبکہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔شاعر کے بلند و بالا خوابوں اور زندگی کے حقائق کی تلخیوں میں موجود تفاوت کو سمجھا جانا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ و سحر گاہی۔
جغرافیائی طور پر دنیا کا بہترین خطہ، وسائل و معدنیات سے مالا مال پر بتوں اور زرخیز میدانوں پر محیط سرزمین، محنتی و جفاکش برین ڈرین تو پھر کمی کس چیز کی ہے ؟ کمی عاجزی و انکساری کے ساتھ خود کو نارمل انسان اور نارمل قوم سمجھنے کی ہے خود کو خدائی فوجدار یا لٹھ بردار سمجھنے کے بجائے خدائی خدمتگار بننے کی ہے آخر ہم اقوامِ عالم میں کس حوالے سے عظیم ہیں ؟ کوئی انسان فطرت اور تاریخی حقائق سے نہیں سیکھتا ہے تو کم ازکم اپنی ہمسائیگی میں دیکھ کر ہی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ امریکا و یورپ نے جعلی غرورو گھمنڈ، تکبر یا تفاخر کو خیرباد کہتے ہوئے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی شاہراہِ مستقیم پر چلتے ہوئے جس لگن سے جدو جہد کی ہے اس کے نتیجے میں اپنے نرگ کو سورگ میں ایسے بدل لیا ہے کہ آج ہر دوسرا پاکستانی اپنا پیارا ملک چھوڑ کر اُن کافروں کے دیشوں میں جا بسنا چاہتا ہے۔ آخر اس نقل مکا نی کے بجائے ہم ا پنے پیارے وطن کو اس قابل بنانے کی تگ و دو کیوں نہیں کرتے کہ باہر گئے ہوئے بھی واپس اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین میں آبسنے کی تمنا کرنے لگیں۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہمارے اہل دانش اِدھر اُدھر کی ہانکتے چلے جانے کے بجائے اپنے اصل ایشوز پر توجہ مبذول فرمائیں۔
اصل ایشویہ ہے کہ سب سے پہلے ہم خود کو نارمل انسانوں کی طرح سمجھیں ہمیں سرخاب کے کوئی پر نہیں لگے اور نہ ہی ہم دنیا کی امامت و سیادت کے لیے پیدا ہوئے ہیں، چین و عرب ہمارا نہیں ہے صرف پاکستان ہمارا ہے۔ تجھے پرائی کیا پڑی ہے اپنی نبیڑ تُو۔ چین و عرب یا ہندوستان والے اپنے مسائل خود حل کر لیں گے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے حقیقی مسائل پر توجہ دیں۔ حقیقی مسائل یہ ہیں کہ یہاں سے غربت، جہالت، بیماری، بے انصافی و لاقانونیت کا خاتمہ ہو۔ کیا ان برائیوں کا خاتمہ اس طرح ہوگا کہ یہاں سے کرپشن کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جائے؟بلاشبہ کرپشن بھی متذکرہ بالا برائیوں جیسی ایک برائی ہے جس کا خاتمہ ہو نا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کرپٹ صرف سیاستدان ہوتے ہیں ؟
ہم صاف اور واضح کہتے ہیں کہ اگر احتساب ہوگا تو بلا امتیاز سب کا ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا آئین سب کو برابری کے حقوق عطا کرتاہے تو پھر ہر معاملے میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئے۔ یہ چلن نہیں ہونا چاہئے کہ جو بدمعاش آپ کے چرنوں میں آجائے وہ نیک پاک اور جو آپ کی سوچ سے اختلاف رائے کرے وہ کرپٹ قرار دے دیا جائے ؟ ایک لبرل سیاستدان کی قیادت میں آئینی و جمہوری جد وجہد کا ثمر ہے۔
ایک مولوی صاحب جن کے متعلق مذاق یا سنجیدگی سے یہ کہا جارہا تھا کہ پوری منتخب پارلیمنٹ میں وہ واحد شخص ہے جو صادق و امین کی شرائط پر پورا اترتا ہے، مطلب کہ 62اور63 جیسی دفعات کی موجودگی میں تو پھر تھیو کریسی ہی آ سکتی ہے۔ آج تو وہ مولوی صاحب بھی پھٹ پڑے۔ پانچ سال تک آپ کے جھوٹ سچ میں پوری طرح ساتھ نبھانے والا گھر کا بھیدی بھی بول پڑا۔ پہلوان جی لاکھ حجت بازیاں کرتے رہیں لیکن وہ سب ’’عذرِ گناہ بدتراز گناہ ‘‘والی کہاوتیں ہیں ویسی ہی جیسی حجتیں اُس کا لیڈر دیتا تھا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھنے سے مراد اللہ پاک کی انگلی تھی۔بھائی بہت ہو چکا اس قوم کے ساتھ مذاق اب بس کردو۔ قوم کے سنجیدہ مسائل پر سنجیدہ رویہ اختیار کرو۔
اپنے ہمسائے کا سرخ چہرہ دیکھ کر طمانچوں سے اپنا منہ لال کرنے کے بجائے ان حقائق پر غور کرو جنہیں اپناتے ہوئے آپ کے ہمسائے نے ترقی کی ہے اور آپ سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ سماجی اونچ نیچ لسانی و مذہبی منافرتیں انہیں بھی درپیش ہیں لیکن انہوں نے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی سر بلندی کا راستہ اختیار کیا ہے کوئی شارٹ کٹ نہیں ڈھونڈا۔پاپولر عوامی طاقت کو سرنگوں کرنے کے لیے کبھی انھوں نے وہ اوچھے ہتھکنڈے اختیار نہیں کیے جنہیں آپ حب الوطنی کا سمبل خیال کرتے ہوئے حرز جان بنائے ہوئے ہو۔ آخر ہم ہی کیوں بات بے بات آپے سے باہر ہو جاتے ہیں دوسروں کو کمتر و ذلیل اور خود کو برترو عظیم خیال کرتے ہیں۔ اگر اقوامِ عالم کے دوش بدوش ترقی کرنی ہے تو پھر گھمنڈ اور تکبر کو چھوڑ کر عاجزی و انکساری کے ساتھ جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنا لو۔ آئینی طور پر جس کا جو رول ہے وہ اسی پر اکتفا کرے اور چالاکیاں چھوڑ دے۔
اگر اس ملک کے مالک و وارث بیس کروڑ عوام ہیں تو پھر حقِ حکمرانی ان کے منتخب و معتمد نمائندوں کو حاصل ہے،اقتدار کا منبع عوام ہیں تو اس کا مظہر منتخب پارلیمنٹ ہے۔ عصرِ جدید کی تاریخی و تہذیبی شعوری ترقی کاا ولین تقاضا یہی ہے۔ اگر آپ اس کے برعکس سوچتے ہیں تو اپنی قوم اور اس کی آنے والی نسلوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں بہتر ہے کہ اس روش سے باز آ جائیں ورنہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ کہلائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)