• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر نے گزشتہ دنوں لاہور کے ایک معتبر ہوٹل میں مختلف اداروں کے سربراہوں اور معیشت سے متعلق شخصیات کو ایک ڈنر پر مدعو کیا۔ ڈنر سے پہلے انہوں نے ایک نمائش کے ذریعے بنگلہ دیش میں ہونے والی مختلف سیکٹرز میں ترقی سے آگاہ کیا۔ اس نمائش میں سولر بجلی کے منصوبے سب کی توجہ کا مرکز رہے۔ ایک بڑے بینر پر LDC لکھا تھا جس کا مطلب تھا کہ بنگلہ دیش اب Less Developing Countries کی فہرست سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔
آج دنیا کے زیادہ تر بڑے اور معروف برانڈ کی اشیاء بنگلہ دیش میں تیار ہو رہی ہیں۔ وہاں کی حکومت نے سرمایہ کاروں کو مطلوبہ سہولتیں یعنی امن و امان کی فضا اور سستی بجلی فراہم کر کے ان کی توجہ حاصل کی ہے۔ کبھی اس طرح کے اکثر برانڈ کی کمپنیاں پاکستان میں کام کرتی تھیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ایک پڑوسی ملک ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اس کے عوام خوشحالی کی طرف گامزن ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آبادی، معیشت اور بہتر حکمت عملی میں ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ آبادی کے کنٹرول کے لئے بہت ساری اسکیموں اور منصوبوں کے باوجود ابھی تک مطلوبہ نتائج کیوں حاصل نہیں کئے جا سکے۔ جھگیوں، جھونپڑیوں اور پسماندہ طبقے تک رسائی کو ممکن کیوں نہیں بنایا جا سکا جس کی وجہ سے معیارِ خواندگی کی شرح بھی اٹکی ہوئی ہے۔ آبادی کے جنگل کے سامنے تمام اقدامات بے بس نظر آنے لگتے ہیں اور امن و امان کی صورتحال بھی کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ بنگلہ دیش نے آبادی، تعلیم اور برآمدات میں حیرت انگیز ترقی کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ان کی برآمدات پچاس ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ پاکستان کی برآمد بیس ارب ڈالر تک ہیں اور درآمدات اس سے دوگنی ہیں جس کی وجہ سے ادائیگیوں میں عدم توازن خسارے کا باعث بنتا ہے۔ 84بنگلہ دیشی ٹکہ ایک ڈالر کے برابر ہے جب کہ پاکستان میں ڈالر 116روپے کا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے وسائل سے مستفید ہونے کی بجائے قرضوں پر انحصار کو زیادہ سہل سمجھ لیا ہے۔ قرضہ حاصل کر کے ہمارے حکمران ملک کے عوام پر احسانِ عظیم کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ یہ قرض سود اور غلامی کی زنجیر ساتھ لاتا ہے جو ہمیں سر اٹھا کر چلنے دیتی ہے نہ آزادانہ حیثیت سے فیصلے کرنے کا اختیار باقی رہنے دیتی ہے۔ سابقہ جمہوری دور میں ہمارے بہت سے سرمایہ کار بے جا ٹیکس، حکمرانوں کی ڈیمانڈز اور بجلی کی قلت سے مجبور ہو کر سرمایہ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں منتقل کرنے اور وہاں فیکٹریاں لگانے کی طرف راغب ہوئے۔ مسلم لیگ کی موجودہ حکومت اگرچہ خود اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے مگر وہ بھی اپنی پالیسیوں میں نرمی کر کے انہیں واپس لانے میں ناکام رہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آخرکب ملکی مفاد حکمرانوں کی ترجیح بنے گا، قوم کا مورال کب ایک چیلنج بن کر ابھرے گا یا یہ صدی بھی نئی نسل کو کشکول اور بے بسی تھما کر گزر جائے گی۔ منصوبہ بندی کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ انرجی معیشت کی گاڑی کو رواں کرنے کے لئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح جسم کو سانس کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اگر گزشتہ دس سالوں میں جمہوری حکومتیں صرف بجلی کے منصوبوں کو ہی پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتیں تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ یورپ میں زیادہ تر وِنڈ انرجی (Wind) کے ذریعے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایسے مقامات ہیں جہاں ہوا کا دبائو اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ کوئلے سے بھی سستی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تمام سال سورج اپنی بے شمار انرجی لے کر ہمارے در پر دستک دیتا ہے لیکن ہمارے پالیسی سازوں کا اس طرف زیادہ رجحان نہیں۔ وہ آسان اور وقتی منصوبوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اللوں تللوں میں پیسے لگانے کی بجائے ایک بار سولر اور Wind کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کر دی جائے تو ہمیشہ کے لئے لوڈ شیڈنگ سے نجات کے علاوہ بجلی بھی سستی ہو سکتی ہے جس کا عام آدمی کے ساتھ سرمایہ کاروں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ملک میں پاکستانی سرمایہ کاروں کو واپس لانے اور دوسرے ممالک کو متوجہ کرنے کے لئے سستی بجلی کے ساتھ ٹیکس میں چھوٹ بھی ضروری ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ کارخانے اور فیکٹریاں پاکستان میں ہوں گے تو یہاں کے لوگوں کو روزگار بھی ملیں گے۔
پاکستان سے محبت ہماری سرشت میں ہے بلکہ ایمان میں شامل ہے مگر یک طرفہ قربانیوں کا سلسلہ کتنی دیر تک جاری رہ سکتا ہے۔ دولت کی تقسیم میں زمین آسمان کا فرق جمہور کو نظام سے متنفر کرتا جا رہا ہے۔ سال کے نصف دنوں تک غیر ملکی دورے، شہنشاہوں کا سا طرزِ عمل، پروٹوکول، مہنگے ہوٹلوں میں قیام، چارٹرڈ طیارے، ہر ملک میں ذاتی گھر رکھنے والے رہنما عوام سے جمہوریت کی بقا کے لئے قربانی مانگ رہے ہیں جب کہ گریڈ 20 کا ایک سرکاری ملازم 25 سال کی ملازمت کے بعد بھی ذاتی گھر کی استطاعت نہیں رکھتا۔ بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ 1955ء میں 17 گریڈ کے سرکاری ملازم کی تنخواہ 5 تولہ سونے کے برابر ہوتی تھی۔ آج بھی یہ کلیہ لاگو کر دیں، دیکھیں کرپشن کیسے ختم ہوتی ہے۔
جمہوریت کی بقا کے لئے عوام اسی وقت قربانی دیں گے جب جمہور کی عزتِ نفس بحال ہو گی، انہیں بنیادی حقوق حاصل ہوں گے، طبقاتی فرق ختم ہو گا، ایک نظام تعلیم رائج ہو گا۔ ترکی کی مثال سب کو بھاتی ہے۔ یہاں بھی کوئی طیب اردگان کی طرح کام تو کرے، ملک کو قرضوں سے نجات دلا کر غیر ملکی ہتھکڑیوں سے آزاد تو کرے، پھر دیکھیں لوگ کیسے ایسے رہنمائوں کی تعظیم کے لئے ہر طاقت سے ٹکرانے پر تیار ہوتے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ مجموعی طور پر ریاست نے گزشتہ 10 سالوں میں وہ کام ہر گز نہیں کئے یا تامل سے کام لیا جو اشد ضروری تھے۔ بجلی کے حوالے سے جتنا کام ہوا وہ صرف پنجاب نے اپنے وسائل سے کیا۔ موجودہ حالات میں صرف شہباز شریف ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو پروٹوکول اور شہنشاہی طرزِ عمل کی بجائے خدمتِ خلق کو اپنا منشور بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
محبِ وطن سرمایہ کاروں کا بھی فرض ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت سولر جیسے منصوبوں کے قیام کو عمل میں لائیں۔ میاں شہباز شریف صاحب سستی بجلی کو اپنی ترجیح بنا کر باقی منصوبوں کو تھوڑا ملتوی کردیں۔ ایک بار ملک کو بجلی میں خود کفیل کر دیں پھر تمام معاملات حل ہونے کی طرف چل پڑیں گے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے مگر آئے دن پریشر گروپوں کا مال روڈ اور اسلام آباد کا دھرنا بھی معیشت کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ اس کی بجائے احتجاج کے لئے کوئی اور راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ آج سماجی حوالے سے ہمیں ایک بہترین قوم بن کر ابھرنا ہے تو اس کے لئے ابھی سے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ یہ رہنما کا کمال ہوتا ہے کہ وہ ملکی وقار اور اجتماعی ترقی کو لوگوں کی ترجیح بنا دے اور وہ ملک کے مورال کو بلند کرنے کے لئے اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دیں۔ اگر عوام کے سامنے رہنما کا کردار واضح نہیں ہو گا تو وہ انفرادی حوالے سے ہی ترقی کرنے کی طرف بڑھیں گے۔ ہم سب جمہوریت نواز ہیں مگر جمہوریت کا مطلب غیر ملکوں میں پڑے ہمارے رہنمائوں کے اثاثوں کی وکالت اور حفاظت نہیں نہ ہی جمہوریت کسی ایک فرد کا نام ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین