• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا معلوم ہورہا تھا کہ مقبرہ جہانگیر پر انارکلی آنے والی ہے رنگ برنگے پھولوں سے سجے ہوئے کپڑوں کے طویل فرش یاتو زمین پر پھیلے ہوئے تھے اور یا وہ مقبرہ جہانگیر کے درو دیوار پر لہراتے نظر آرہے تھے ۔ گو کہ رنگ برنگے کپڑے کو بڑی پختگی سے زمین اور فیصلوں پر سجایا گیا تھا ۔ہوا کے نہ نظرآنے والے اڑتے ہوئے ریلے اس رنگین کپڑے سے اٹھکیلیاں کرتے نظرآتے تھے ،یوں لگ رہا تھا کہ ہوا کی گد گدی کے جواب میں لہراتے کپڑے مسکرارہے ہیں یا کسی بچے کی طرح معصوم قہقہے لگارہے ہیں۔ میں لاہورمیں تھا اور اپنے بچپن کے بعد ایک مرتبہ پھر لاہور کی اصل خوبصورتی کو دیکھ رہا تھا۔جولاہور کے عظیم الشان ہونے کا اعلان ہے اور جب بھی میں لاہورکے ان تاریخی مقامات پر جاتا ہوں جو شاہی قلعے،مقبرہ جہانگیر یا دیگر جگہوں کی شکل میں آج بھی لاہور میں موجود ہیں ،تو میں ایک عجیب سے سحر میں کھوجاتا ہوں،کبھی ہاتھیوں کی وہ قطاریں گزرتی نظرآتی ہیں جو زرق برق چادروں سے سجے اور مہاوت کی رہنمائی سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں یا شاہی ہر کا رے کی یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ ہوشیار،نظریں روبرو، عظیم الشان شہنشاہ ،شاہ ہندوستان، جان ہندوستان تشریف لاتے ہیں۔یا درباری کورنش بجاتے ہوئے بادشاہ سلامت کے سامنے جھک جھک کر جان کی امان مانگتے ہوئے مدعا بیان کرتے نظر ٓتے ہیں۔ یا باغیچوں میں خادمائیں پھولوں کی ما لائیں اٹھائے ملکہ کی دلجوئی کرتی نظرآتی ہیں ۔راوی کے کنارے مقبرہ جہانگیر بھی شا ید ایک ایسی ہی جگہ ہے جہاں پہنچ کر آپ اس دور میں کھو جاتے ہیں، جب شاہی طمطراق عروج پر ہوتا تھا لیکن پھر فوری طورپر مقبرے کی خاموشی اور دیواروں سے لپٹی اداسی یہ چیخ چیخ کرکہہ رہی ہوتی ہے۔ کہ زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ لیکن اس بار مقبرہ جہانگیر کے تقریباً100 ایکڑ پر پھیلے ہوئے احاطہ میں داخل ہوتے ہی رنگ برنگے کپڑوں کے پھیلے ہوئے تھان میرے لیے حیرت کا باعث تھے لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ گرمی کی آمد آمد ہے اور خواتین کے لئے لان کے رنگ برنگے سوٹ کے حوالے سے ایک کمرشل شوٹ ہورہاہے۔ آج سے تقریباً چار سو سال قبل دس سال میں تیار ہونے والے مقبرے ،جس پر ماہرین کے مطا بق اس دور میں دس لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی اور مغیلہ دور کے فن تعمیر کاتاج محل کے بعد مقبرہ جہانگیر دوسرا بڑا شاہکار سمجھاجاتا ہے۔ لیکن سنگ سرخ اور سنگ مرمر کے حسین امتزاج سے تیارکردہ اس عالی شان شاہکار کو کمرشل شوٹ کرنے کا مقام بنالیا گیاہے۔ چلیں شاید یہ بھی قابل قبول ہے بلکہ مقبرہ جہانگیر کے فن تعمیر کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک شکل ہے کہ کیمرے کے ذریعے کھلتے رنگوں کے کپڑوں کے پس منظر میں وہ درودیوار دکھائے جائیں جو باکمال لوگوں کے ہنرمند ہاتھوںنے پتھروں کو تراش کر بنائے تھے۔ لیکن ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے پتھر، بھاگتے دو ڑتے ،کتے بلیاں، کوڑا کرکٹ اور بوسیدگی اس مقبرے پر نوحہ کناں کرتے نظرآتے ہیں۔1627ء میں شاہجہان کے تعمیر کردہ اس عالی شان مقبرہ کا بھی اب مقبرہ بنتاجارہا ہے۔عدل وانصاف کرنے والاجہانگیر قدرت کے قانون کے مطابق خاک ہوا پڑا ہے۔ دراصل اس مقبر ے کی زبو ں حا لی اس وقت شروع ہوگئی تھی جب عقیق،زمرد اور دوسرے خوبصورت پتھروں سے سجے ہوئے اس مقبرے میں گوروںنے اپنے لیے کوئلے کا ڈپوبنالیا تھا ۔وہ یہاں کوئلہ رکھتے اور پھر یہاں سے ضرورت کے مطابق کوئلے کودیگر جگہوں کے لیے سپلائی کرتے ،گورے تو قابضین تھے لیکن ہم نے بھی اپنے اس عالی شان اثاثے کو شاید کوئلے کا ایک ڈپو ہی سمجھ رکھا ہے ۔ ہماری بے قدری کی وجہ سے یہ اثاثہ مجھے بوسیدگی کا شکار ہوتا نظر آیا۔ نہ حکمران اس ورثے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور نہ ہی ہمارے عوام اپنے ورثے اور اپنے اثاثے کے بارے میں زیادہ پریشان ہیں ،اگر ہم ہی ٹھیک ہوتے تو ان اثاثوں کا یہ حال نہ ہوتا ، درو دیوار یوں ریزہ ریزہ ہوتے نظر نہ آتے، کوڑے کرکٹ کو یوں نہ پھینکا جاتا، بلکہ دنیا کے سیاح دور دورسے اس تا ریخی شاہکار کو دیکھنے آتے،اس کے درودیوار کو اپنے کیمروں کے ذریعے، اپنی سیلفی کے ذریعے ساری دنیا میں پہنچاتے لیکن نہ جانے ہم نے مقبرہ جہانگیر پر بھی اپنی ’’قلمکاری‘‘ کرتے ہوئے یہ کیوں لکھ دیا ہے کہ’’پپو یار تنگ نہ کر‘‘ خدارا یہ اثاثہ، یہ ورثہ بہت گرانقدار ہے اس کو یوں نہ تباہ کریں۔

تازہ ترین