• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تہذیب و ترقی کے اس دور میں تعلیم سب سے اچھی سرمایہ کاری سمجھی جاتی ہے۔ جن قوموں نے اپنے ارتقائی سفر میں تعلیم کے شعبے کو سرفہرست رکھا وہ آج خوشحال ہیں اور بعض ممالک اسلئے پیچھے رہ گئے کہ وہ تعلیم کے فروغ میں مطلوبہ وسائل بروئے کار نہ لاسکے یا انہوں نے اس شعبے کو ثانوی حیثیت دی اور اسے پس پشت ڈال دیا بدقسمتی سے پاکستان ایسے چار ممالک میں سے ایک ہے جو قومی بجٹ کا انتہائی کم حصہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق تعلیم کے شعبے میں ہم جس رفتار سے چل رہے ہیں اور جو کارکردگی دکھا رہے ہیں اس کے مطابق 2076تک ہی پاکستان کے ہر بچے کا اسکول جانے کا خواب پورا ہو سکے گا۔ ملک میں ہائیر ایجوکیشن کے معیار کا یہ حال ہے کہ چند روز قبل سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 500بہترین جامعات کی فہرست میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی شامل ہے اس صورت حال میں دنیا بھر میں ہمارا میرٹ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل کے مطابق ہماری تعلیمی انحطاط کی سب سے بڑی وجہ ملکی جی ڈی پی کا تعلیم کیلئے محض 2.68فیصد مختص کرنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5سے 16سال کی عمر کے 47فیصد (2کروڑ چالیس لاکھ) بچے سکول جانے سے محروم ہیں، 16فیصد سرکاری پرائمری اسکول صرف ایک کلاس روم پرمشتمل ہیں، 29فیصد اسکولوں میں درس و تدریس کیلئے صرف ایک استاد ہے، 8 سے 15 فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں، گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 8252 ، 45فیصد سکولوں کی عمارتیں غیر تسلی بخش، 49فیصد میں بجلی نہیں، بلوچستان اور سندھ کے 50 فیصد سے زائد تعلیمی اداروں میں پینے کا پانی اور بیت الخلا تک نہیں، یہ صورت حال تعلیمی اصلاحات کی متقاضی ہیں،دوسری قوموں کے سامنے قدر تب ہی بڑھتی ہے کہ کسی ملک کی اولین ترجیح تعلیم ہو۔ اگر اب بھی ہم نے خلوص نیت سے کام نہ لیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین