• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خوشگوار موسم کی ایک سنہری دوپہر تھی، آج سے بیس بائیں برس پہلے کی یہ دوپہر اب بھی میرے ذہن پہ نقش ہے۔ اس نے کلف لگی سفید شلوار قمیص پہن رکھی تھی، وہ دفتر میں داخل ہوا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا پھر میرا پوچھا، کچھ ہی دیر میں اسٹاف مجھے عمران خان کے پاس لے گیا (اسٹاف کے یہ ممبران آج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں) یہی بات کافی ہے کہ وہ عام آدمیوں کے ساتھ بھی کس طرح نبھاتا ہے۔ خیر میری عمران خان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ بس اس کے بعد تب سے اب تک ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران میں نے کئی مرتبہ اخبارات کے لئے اور پھر ٹی وی کے لئے اس کے انٹرویوز کئے۔ میں اُسے ایک روز پنجابی ٹی وی چینل پر بھی لے گیا، اس کا پنجابی زبان میں نجی انٹرویو کیا۔
میں یہاں بیس بائیس برسوں کی ملاقاتوں کا احوال تو نہیں لکھ سکتا البتہ عمران خان کی شخصیت کے حوالے سے چند باتیں ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ اتنے برسوں میں، میں نے جب بھی اس سے کوئی بات کی، اُس نے اسے بہت سنجیدہ لیا، اگر اُسے کوئی مشورہ دیا تو اس پر بھی عمران خان نے عمل کیا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ میں نے اسے زندگی بھر کبھی غلط مشورہ نہیں دیا۔ یہی صورت حال کپتان کی ہے اُس نے بھی مجھے ہمیشہ عمدہ مشورہ دیا۔ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ دنیا میں میرے موٹاپے کی سب سے زیادہ فکر عمران خان کو ہے، اسی لئے وہ مجھے ورزش کا مشورہ دیتے رہتے ہیں مگر میں اس سلسلے میں بہت سست ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ورزش شروع نہیں کر سکا، شاید اسی لئے آج کل خان صاحب سے کم ملتا ہوں۔
عمران خان کا سیاسی سفر بھی عجیب و غریب ہے۔ اس کے سامنے کئی مرتبہ مایوسیوں کی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے مگر وہ حوصلہ نہیں ہارتا، اس کی ہمت ہر وقت جوان رہتی ہے۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ بہت کامیاب سوشل ورکر تھا، اس سے پہلے انتہائی کامیاب کرکٹر تھا، اس نے کرکٹ میں جو کامیابیاں حاصل کیں پاکستان اُس سے پہلے یا اُس کے بعد حاصل نہیں کر سکا۔ اُس نے کینسر کا وہ اسپتال بنایا جسے پاکستان کی حکومتیں نہیں بنا سکی تھیں۔ عمران خان کی یہ کامیابیاں دراصل پاکستان ہی کی کامیابیاں تھیں مگر آج ہم عمران خان کی سیاست کی بات کریں گے۔ اسپتال بنانے کی مہم کے دوران جب پاکستان کے غریب عوام اپنے اس ہیرو پر بہت کچھ نچھاور کر رہے تھے اسی دوران اسے پتہ چلا کہ پاکستان کا سیاسی مافیا غریب لوگوں کے ساتھ کس طرح ظلم کرتا ہے؟ کس طرح لوگوں کے ووٹ کا تقدس پامال کرتا ہے؟ کس طرح ناانصافی کا نظام قائم ہے؟ یہی وہ وجوہات ہیں جو عمران خان کو سیاست میں لے آئیں۔ پارٹی بناتے وقت اُس نے ظلم ،ناانصافی اور کرپشن کے خلاف نعرہ لگایا تھا، وہ اس نعرے پر آج بھی قائم ہے۔ اس جدوجہد میں جب اُس کے ساتھ بہت کم لوگ تھے وہ اس وقت بھی باہمت تھا، اب اس کے ساتھ پورا سونامی ہے تو اب بھی وہ اسی طرح باہمت ہے، وہ کبھی گھبرایا نہیں، ڈرا نہیں، وہ ہمیشہ عزت اور غیرت کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ گزشتہ بائیس برسوں میں اسے کئی لوگوں نے چھوڑا اور بہت سے لوگوں نے جوائن کیا، آج اُس کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ وہ اوورسیز پاکستانیوں میں مقبول ترین لیڈر ہے۔ لوگ اُس کی ایمانداری کے اتنے قائل ہیں کہ لمحوں میں کروڑوں نچھاور کر دیتے ہیں۔ وہ جب کرکٹر تھا تو دنیا کے تمام کرکٹرز سے زیادہ مقبول تھا، ایک زمانے میں کرکٹ اُس کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اب سیاست کا یہ عالم ہے کہ وہ مقبول ترین سیاستدان ہے۔ کپتان خود 2002ء میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا رکن بنا۔ 2008ءکے الیکشن میں میاں نواز شریف نے اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں سے دھوکہ کیا، انہوں نے باقی جماعتوں سے الیکشن کا بائیکاٹ کروایا اور خود الیکشن میں چلے گئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب عمران خان کو نواز شریف پر بے اعتباری شروع ہوئی۔ اُس نے حوصلہ نہ ہارا اور اپنی پارٹی پر توجہ مرکوز رکھی پھر اس نے 2011ءمیں مینار پاکستان پر ملکی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کر دیا۔ یہ جلسہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے سیاسی مخالفین پریشان ہو گئے۔ انہوں نے 2013ء کے الیکشن کے لئے مرضی کا الیکشن کمیشن بنایا، مرضی کی نگران حکومتیں بنائیں، جب الیکشن مہم شروع ہوئی تو پورا ٹبر پورے دن میں دو یاتین جلسے کرتا تھا جبکہ اکلوتا عمران خان چھ سات جلسے کر جاتا تھا۔ پھر الیکشن سے پندرہ دن پہلے دو اہم عہدیداروں نے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔ بے قابو عمران خان کو لاہور میں گرایا گیا یوں 2013ء کا الیکشن اس کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا۔ اس الیکشن میں عمران خان کا جسم ٹوٹا، دل ٹوٹا مگر مخالفین اس کا حوصلہ نہ توڑ سکے۔ وہ اسپتال سے اٹھا اور دھاندلی کا حساب کرنے نکل پڑا۔ اس نے دھرنے دیئے، اُسے کئی بار توڑنے کی کوشش کی گئی مگر عمران خان مخالفین سے نہ ٹوٹ سکا، یہ سب لٹیرے، نام نہاد جمہوریت کے نام پر اکٹھے ہو گئے۔ سب عمران خان کے خلاف صف آرا ہو گئے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک شام ہم دونوں بنی گالہ میں بیٹھے تھے، سورج شام کی آغوش میں اتر رہا تھا اور میں خان صاحب سے کہہ رہا تھا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آصف زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار، محمود اچکزئی، حاصل بزنجو اور بانی ایم کیو ایم تمہارے کیوں خلاف ہیں؟ ان سب کا کھیل ایک ہے، یاد رکھو ان سب کی مخالفت سے آپ کا قد اونچا ہو رہا ہے، یہ سارے مل کر اکیلے عمران خان کا مقابلہ کر رہے ہیں اور عمران خان پھر بھی ان کے قابو نہیں آ رہا۔ جن لوگوں کو عمران خان اور نواز شریف میں فرق سمجھ نہیں آ رہا وہ صرف 25اپریل کو یاد رکھیں۔ 25اپریل 1981ء میں نواز شریف، ضیاء الحق کی چھتری تلے صوبائی وزیر بنا تھا جبکہ عمران خان نے 25اپریل 1996ء کو بے نظیر بھٹو شہید کے جمہوری دور میں اپنی سیاسی جماعت بنائی تھی۔ نواز شریف کسی بھی سیاسی جدوجہد کے بغیر عوامی عہدے تک پہنچ گیا تھا جبکہ عمران خان بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد بھی عوامی عہدے تک نہیں پہنچ سکا۔
جب سب خاموش تھے، کراچی کو ہلا دینے والے کے خلاف کوئی نہیں بولتا تھا تو یہ عمران خان ہی تھا جس نے اُسے للکارا۔ کپتان نے پاکستان کے چور سیاستدانوں کو چور کہا، ڈاکو کہا۔ میں نے اسے ایک دن کہا کہ آپ کے مخالفین کو آپ کے انداز گفتگو پر اعتراض ہے، اس پر میانوالی کا پٹھان فوراً بولا ’’میں چور کو چور نہ کہوں تو کیا کہوں، کیا چور کا کوئی اور بھی مطلب ہو سکتاہے۔‘‘
چلو عمران خان کے مخالفین کی ایک اور عادت پر بات کر لیتے ہیں۔ اُس کے مخالفین آئے روز میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے خلاف مہم چلاتے ہیں، کرپشن انہیں کہیں ملتی نہیں تو پھر وہ اس کی شادیوں کو موضوع بحث بنا لیتے ہیں۔ عمران خان سادہ اور درویش آدمی ہے، چپ رہتا ہے۔ اُس نے ایک دن کہا تھا کہ ’’میں ہر ایک کو پازیٹو لیتا ہوں، اندر کا حال خدا جانتا ہے‘‘۔ چلو یہ قصہ بھی آپ کو سنا دیتا ہوں، جب عمران خان نے ریحام سے شادی کی تو میں ناراض ہو گیا، میں نے اس سے بات چیت بند کر دی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ خان اپنی سادگی میں ریحام کے ہاتھوں پھنس گیا ہے اور یہ خاتون تو اس شادی سے پہلے ایک وفاقی وزیر کے ہاں ہر ویک اینڈ پر خصوصی پارٹی میں شریک ہوتی تھی۔ جب طلاق ہوئی تو میں نے اسے مبارک دی پھر ہماری لمبی چوڑی بحث ہوئی۔ شادی نہ کرنے کا طے پایا پھر کچھ عرصے بعد ایک روز کپتان کہنے لگا ’’اگر کوئی نیک خاتون ہو تو شادی کر لوں‘‘پھر خان صاحب ن ے بشریٰ بی بی سے شادی کرلی، آج کل ایک سوشل میڈیا مہم اس پر بھی چلی ہوئی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ بشریٰ بی بی ایک نیک اور پارسا خاتون ہیں، وہ پردہ دار ہیں، انہیں حضورﷺکی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ زہراؓ سے عشق ہے، جب کبھی بھی خاتونِ جنت کا تذکرہ ہو تو بشریٰ بی بی کی آنکھیں اشکوں سے معطر ہو جاتی ہیں۔ عمران خان کی اہلیہ جمعہ اور پیر کا پورا دن درود شریف پڑھتی ہیں، انہوں نے بنی گالہ میں ایک کمرے میں گوشۂ درود بھی بنا رکھا ہے۔ کسی کا عاشق رسولؐ ہونا، سیدہ زہراؓ سے عقیدت رکھنا ہی تو سب سے معتبر حوالہ ہے۔
25اپریل 2018ء کو ندیم افضل چن پی ٹی آئی کا حصہ بنے، یہ درست ہے کہ ندیم افضل چن نے اپنے والد کی بات مانی کیونکہ ان کے والد نے پانچ ماہ پہلے مجھ سے کہا تھا کہ ’’میری خواہش ہے کہ ندیم، عمران خان کا ساتھی بن جائے‘‘۔ جو لوگ حاجی افضل چن سے واقف ہیں انہیں ان کی دور اندیشی کا بخوبی اندازہ ہے، وہ پنجاب کے چند سمجھدار ترین لوگوں میں شامل ہیں۔ پنڈ مکو میں بھی عمران خان نے بڑی صاف بات کی کہ ’’اگر میں راہِ حق سے ہٹوں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا۔‘‘
عمران خان 29اپریل کو مینار پاکستان لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرنے جا رہے ہیں، اس جلسے میں وہ اپنے منشور کا اعلان کریں گے، غریب اور امیر کے لئے ایک جیسے قوانین کا اعلان کریں گے۔ ہو سکتا ہے ان کے اس جلسے میں ان کے پرانے دوست چوہدری نثار علی خان بھی ایک بڑے گروپ کے ساتھ شامل ہوں۔ خیر یہ تو طے ہے کہ عمران خان کا جلسہ لوگوں کی آنکھیں کھول دے گا، مخالفین کی نیندیں حرام کر دے گا۔ یقین کیجئے اگر عمران خان نہ ہوتا تو پاکستان میں چور بے نقاب نہ ہوتے، ڈاکو بے نقاب نہ ہوتے، پاکستان میں سیاسی شعور بھی پروان نہ چڑھتا۔ عمران خان کو اتنا کریڈٹ تو ضرور دیں کہ اُس نے ملکی دولت لوٹنے والوں کو سرعام رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔ بقول فرحت زاہد؎
عجب در پر سوالی تھا میں اس کو پھول کیا دیتی
وہ خود گلشن کا مالی تھا میں اس کو پھول کیا دیتی

تازہ ترین