• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے واک آئوٹ سے وفاقی بجٹ پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ وفاقی حکومت کو سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے تحفظات کو دور کرنا چاہئے۔ چونکہ اب حکومت کی میعاد پوری ہونے والی ہے اس لئے وفاقی حکومت کو پورے سال کا ترقیاتی بجٹ پیش نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ایک غیر آئینی اقدام ہوگا۔ بلکہ اس وقت چھ ماہ کا ضمنی بجٹ پیش ہونا چاہئے۔ سندھ، کے پی اور بلوچستان کا مطالبہ ہے کہ ترقیاتی فنڈز میں چھوٹے صوبوں کا خیال رکھا جائے اور ہماری سفارشات کو بھی اہمیت دی جائے۔ تین صوبوں کے احتجاج اور واک آئوٹ کی وجہ سے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہوگیا۔ ضمنی بجٹ کی منظوری نہ ہونے سے آئندہ سال جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام ٹھپ ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں نگران سیٹ اپ کے لئے بھی ابھی مشاورت کا عمل جاری ہے۔ لیکن ابھی تک مرکز اور صوبوں میں اس حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ لگتا یہ ہے کہ نگران حکومت کے قیام کے لئے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کریں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے دو تین ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ اسے ضمنی بجٹ قومی اقتصادی کونسل میں پیش کرکے منظور کروانا چاہئے۔ موجودہ حکومت جون تک ختم ہو جائے گی اس لئے اگلے سال کی پی ایس ڈی پی موجودہ حکومت نہیں بناسکتی۔ مرکز میں نگران وزیراعظم کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں۔ فرحت اللہ بابر کا نام بھی نگران وزیراعظم کے لئے سامنے آیا ہے لیکن اس پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق نہیں ہوا۔ پنجاب میں بھی نگران وزیراعلیٰ کے لئے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے تین تین نام تجویز کردیئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر نے امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصوداحمد کے ساتھ مشاورت کے بعد کیئر ٹیکر پنجاب حکومت کے لئے تین نام تجویز کیے ہیں، جن میں سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میاں اللہ نواز، سابق وفاقی سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر صفدر محمود اور سابق وفاقی سیکرٹری صنعت خضر حیات گوندل شامل ہیں۔ یہ تینوں نام اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف نے بھی نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے تین نام تجویز کیے ہیں، جن میں ڈاکٹر سلمان شاہ، شاہد کاردار اور طارق کھوسہ شامل ہیں۔ باقی صوبوں میں بھی نگران سیٹ اپ کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت ہورہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کے لئے اس بات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے کہ نگران سیٹ اپ میں اچھی اور صاف ستھری شخصیات کو شامل کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگر کرپٹ اور مفاد پرست عناصر نگران سیٹ اپ کا حصہ بن گئے تو پھر2018کے الیکشن شفاف اور غیر جانبدار نہیں ہوسکیں گے۔ اسی تناظر میں ماہر معیشت اور جامعہ کراچی کی شعبہ معاشیات کی سربراہ ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے مجھے فکر انگیز خط بھجوایا ہے جو کہ نذر قارئین ہے۔
محترم محمد فاروق چوہان صاحب!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
آپ کے کالم کے ذریعے میں عبوری حکومت کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتی ہوں۔ کہا جارہا ہے کہ ہماری معیشت بہت زبوں حالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ماہر معاشیات کو عبوری وزیراعظم اور وزیر خزانہ بنانا ہوگا اور یہ ماہر معاشیات وہ ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں سے منسلک رہے ہیں یا منسلک ہیں۔ 1990کی دہائی سے لیکر آج تک یہ کسی نہ کسی روپ میں پاکستان کی اہم وزارتوں پر براجمان رہے ہیں۔ یا تو یہ عبوری حکومتوں کو چلاتے رہے ہیں یا منتخب حکومت کی خزانے اور اقتصادیات کی ذمہ داریاں ان کے سپرد رہی ہیں۔ یہ حکومت میں بھی ہوتے ہیں مگر حکومت کی اقتصادی کارکردگی پر تنقید بھی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کرکٹ میچ کھیل رہے ہیں جس میں بولنگ بھی یہ کررہے ہوتے ہیں اور بیٹنگ بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ امپائر کے فرائض بھی خود سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ پچھلے تقریباً تیس سالوں سے اقتدار میں رہے ہیں انکی کارکردگی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کے مطابق پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ اس نازک صورت حال میں کیا ہمیں ایسے لوگوں کو حکومت میں لانا چاہئے جن کی کارکردگی اتنی ناقص رہی ہے؟ ان میں سے بہت سے دہری شہریت رکھتے ہیں؟ جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے بارے میں ایک فیصلہ دیا ہے کہ انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اداروں سے رہنمائی حاصل کریں اور صرف وہ نام عبوری وزیراعظم، وزیرخزانہ اور دیگر وزراء کے لئے تجویز کریں جو اس معیار پر پورے اترتے ہوں۔ اگر ہم عبوری حکومت سے انتخابات کرانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے سب سے بہترین امیدواراعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان ہوں گے جنہوں نے ماضی میں اس قسم کی ذمہ داریاں بخوبی انجام دی ہیں جو کرپشن کے خلاف ایک جہاد برپا کئے ہوئے ہیں۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے جمہوریت بچائی جاسکتی ہے کہ جج صاحبان امیدواروں کی جانچ پڑتال کریں۔ کرپٹ عناصر بیرونی عوامی اور دہری شہریت رکھنے والوں کو اس مقابلے سے فارغ کر کے محب وطن، ایماندار اور قابل پاکستانیوں کو اقتدار میں لے کر آئیں۔ اگر ایک مرتبہ ایسا ہو جائے تو پاکستان کو اقوام عالم میں اس کا صحیح مقام حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
والسلام
ڈاکٹرشاہدہ وزارت (ماہرمعاشیات)
ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ شعبہ اکنامکس کراچی یونیورسٹی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین