• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے یہاں یا تو صوبوں کو کوئی خود مختاری نہیں تھی، انہیں کبھی ادھر تو کبھی ادھر گھسیٹا جاتا رہا، حالانکہ پاکستان 1940ء کی جس قرارداد کے تحت وجود میں آیا تھا اس میں صاف طور پر لکھا ہوا تھا کہ پاکستان میں ریاستیں خودمختار ہوں گی مگر کیا واقعی ایسا ہوا؟ یہاں تو مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کو ون یونٹ کے ذریعے زنجیروں میں باندھ کر بڑے صوبے کے حوالے کردیا گیا، بعد میں خدا خدا کرکے 1973ء میں ایک ایسا آئین بنا جسے کسی حد تک وفاقی کہا جاسکتا تھا مگر اس آئین اور اس آئین کو بنانے والے کا کیا حشر ہوا، آئین بنانے والے کو پھانسی چڑھا دیا گیا اور تھوڑے ہی عرصے کے دوران اس وفاقی آئین کو بھی دفن کر کے ایک بار پھر مارشل لالگا دیا گیا، بعد میں اعلان تو یہ کیا گیا کہ مارشل لا ختم کر کے سویلین رول بحال کردیا گیا مگر کیا یہ واقعی حقیقی سویلین رول تھا، کیا یہ سویلین مارشل لا نہیں تھا؟ پھر ایک مرحلے پر18ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ18ویں آئینی ترمیم کی اکثر شقوں پر یا تو بالکل عمل نہیں کیا گیا یا اگر کیا گیا تو وہ بھی Half heartidly تھا۔ بہرحال اب تک مرکز کی طرف سے چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی، ان کو چھوٹے صوبے پتہ نہیں کیوں خاموشی سے برداشت کرتے رہے، فقط کبھی کبھی این ایف سی ایوارڈ نہ دینے یا اس سلسلے میں من مانے فیصلے کیے جانے پر ایک دو صوبے ضرور ’’ہلکا‘‘ احتجاج کرتے رہے مگر لگتا ہے کہ اب چھوٹے صوبوں کا صبر بھی ختم ہورہا ہے، اس قسم کی صورتحال منگل 24اپریل کو نظر آئی جب اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ملک کے ترقیاتی بجٹ اور پروگرام کی منظوری دینے کے لئے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہوا۔ وزیراعظم اور وفاقی وزراء نے جس طرح تینوں چھوٹے صوبوں کی ترقی کے لئے دی گئی تجاویز کو منظور نہیں کیا تو تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کانفرنس کا بائیکاٹ کر کے باہر چلے گئے اور بعد ازاں ان تینوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم اور وفاقی وزراء کے غیر منطقی رویوں کے بارے میں حقائق بیان کیے، تینوں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے اس پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کیونکہ ’’وزیراعظم ترقیاتی بجٹ میں صوبوں کر نظر انداز کر کے اپنی تجاویز کی زبردستی منظوری لے رہے تھے لہذا وہ تینوں کانفرنس کا واک آئوٹ کرکے باہر آگئے‘‘۔ پریس کانفرنس میں تینوں وزرائے اعلیٰ نے انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر موقف اختیار کیے، ان کا مختصر اختصار مندرجہ ذیل ہے:’’سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل کے 13میں سے 9ممبران اجلاس میں موجود تھے، ان میں سے 5 کا تعلق چھوٹے صوبوں سے تھا، ہم نے موقف اختیار کیا کہ حکومتیں 31مئی کو ختم ہورہی ہیں لہٰذا فقط جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقوم مختص کی جائیں، ہمارا موقف تھا کہ ترقیاتی فنڈز میں سارے صوبوں سے برابر کا سلوک کیا جائے مگر وزیراعظم نے ہمارا موقف تسلیم کرنے کے بجائے ہم پر اپنے فیصلے مسلط کرنا چاہے، ہم نے ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا جو تسلیم نہ کیے جانے پر ہم نے وفاق کے اقدامات کی مخالفت کی تو کچھ وفاقی نمائندوں نے کہا کہ بجٹ کی این ای سی منظور ضروری نہیں ہے۔ سید مراد علی شاہ نے انتباہ کیا کہ اگر کورم ٹوٹنے کے بعد بجٹ منظور کیا گیا تو یہ غیر قانونی فیصلہ ہوگا۔ کے پی کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ ترقیاتی پروگرام میں ہماری تجاویز شامل نہیں کی گئیں اور اس میں ان کی مرضی کے منصوبے شامل کیے گئے‘‘۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ قدوس بزنجو نے کہا کہ ’’جو ترقیاتی بجٹ تیار کرکے پیش کیا گیا اس میں چھوٹے صوبوں کے ترقیاتی منصوبے شامل نہیں تھے، ہمارا موقف تھا کہ موجودہ حکومت تین ماہ کا بجٹ پیش کرے، باقی بجٹ آئندہ حکومت آکر پیش کرے‘‘۔ تینوں وزرائے اعلیٰ نے خاص طور پر دو نکات پر زور دیا، ایک یہ کہ چونکہ اب کیئر ٹیکر حکومت قائم ہورہی ہے اور عام انتخابات ہورہے ہیں لہٰذا یہ حکومت زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے لئے بجٹ پیش کرسکتی ہے، اس موقف میں وزن تو ہے کہ موجودہ حکومت انتخابات میں منتخب ہو کر اقتدار میں آنے والی حکومت کے اس حق کو کیوں یرغمال بنا رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر باقی سارے سال کے لئے بجٹ نہ بنائے۔ مجھے یاد ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پی پی نے 1988ء میں انتخابات جیت کر حکومت بنائی تو نیا سال شروع ہونے میں کچھ ماہ باقی تھے لہٰذا ان کی حکومت نے بھی فی الحال چند ماہ کے لئے بجٹ منظور کرایا اور نیا مالی سال شروع ہونے پر نئے سرے سے پورے سال کے لئے قومی اسمبلی سے بجٹ منظور کرایا گیا حالانکہ موجودہ حکومت کی تو مدت ختم ہورہی ہے جبکہ اس وقت پی پی تو منتخب ہوکر آئی تھی جہاں تک تینوں وزرائے اعلیٰ کے اس نکتہ کا تعلق ہے کہ اس ترقیاتی بجٹ میں تینوں چھوٹے صوبوں کی ترقیاتی اسکیمیں شامل نہیں کی گئیں حالانکہ غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق اس بجٹ میں پنجاب کو حسب معمول خوب نوازا جارہا ہے، اس صورتحال کے پیدا ہونے کے بعد سندھ بھر میں تشویش کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے، گزشتہ دو دنوں سے سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی حلقوں نے اس صورتحال پر مجھ سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اکثر کی رائے کے مطابق چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کرکے جو بجٹ منظور کرایا جارہا ہے اس کے خلاف احتجاج کرکے تینوں وزرائے اعلیٰ کا قومی اقتصادی کونسل سے واک آئوٹ اور مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنا، تینوں چھوٹے صوبوں کے لئے امید کی کرن ہے، ان حلقوں کے مطابق ویسے بھی جس طرح وزیراعظم اور وفاقی نمائندے کھل کر چھوٹے صوبوں کے مفادات کو نظر انداز کررہے ہیں تو یہ تینوں چھوٹے صوبوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے تینوں وزرائے اعلیٰ کے واک آئوٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے رائے ظاہر کی ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہونی چاہئے، بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے ان حلقوں کا خیال ہے کہ تینوں چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے پر اکتفا کرکے نہ بیٹھ جائیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کم سے کم تینوں وزرائے اعلیٰ جلد اپنا ایک مشترکہ اجلاس بلائیں جس میں اس صورتحال کے ہر پہلو کا جائزہ لیکر ایک مناسب مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے تاکہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی پاسداری کی جاسکے۔ مجھ سے جن دانشوروں نے بات چیت کی ہے ان میں سے اکثر کی رائے ہے کہ وقت آگیا ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے اسے حقیقی وفاق کی شکل دی جائے۔ اس سلسلے میں ان کی خاص طور پر یہ تجویز تھی کہ جس طرح مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں Parity قائم کی گئی تھی اسی طرح چاروں صوبوں میں بھی Parity قائم کی جائے اور تمام وفاقی اداروں میں سارے صوبوں کو مساوی نمائندگی دی جائے اور آئین میں یہ شق بھی شامل کی جائے کہ ہر وفاقی ادارے کا سربراہ تین ماہ کے بعد چاروں صوبوں میں Rotate کرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین