ڈیٹ لائن لندن …آصف ڈار برطانیہ میں زیرزمین (انڈرگرائونڈ)اور اوورگرائونڈ ٹرینیں چلانے کے تمام بنیادی کام، فیکٹریوں کی چمنیوں کو رواں دواں رکھنے، بلند و بالا عمارتیں بنانے اور دوسرے انتہائی سخت جان کام کرنے کے لئے کریبین اور افریقی ممالک سے افرادی قوت کو لانا اس ملک کی مجبوری بن چکی تھی کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے اندر مردوں کی تعداد بہت کم ہوگئی تھی۔ افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جہاں برطانوی حکومت نے برصغیر پاک و ہند سے لوگوں کی آمد کی حوصلہ افزائی کی وہاں کریبین ممالک کے لوگوں کو خاص طور پر انڈرگرائونڈ بنانے اور دوسرے مشکل کاموں کیلئے برطانیہ لایا گیا کریبین ممالک سے 1948 سے 1971کے دوران برطانیہ لائے گئے امیگرنٹس کو ونڈرش جنریشن (Windrush Generation)کہا جاتا ہے مزدور پیشہ ان سادہ لوح افراد کو امیگریشن قوانین کی پیچیدگیوں کے بارے میں علم ہی نہیں تھا اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ جس ملک کے لئے انہوں نے اپنی ساری زندگی تیاغ دی وہیں سے انہیں بالآخر آخری عمر میں نکالا جائے گا۔ ان لوگوں نے اسی ملک کو اپنا گھر بنایا اور ان کی اکثریت نے کبھی واپسی جمیکا، ترنیداد، ٹوباگو اور دوسرے جزیروں میں جانے کا نام بھی نہیں لیا۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ آیا ان جزیروں میں اب ان کا کوئی منتظر ہے بھی کہ نہیں۔ جنہوں نے اپنے ممالک کے ساتھ رابطے بحال رکھے انہوں نے شہریت بھی حاصل کی اور پاسپورٹس بھی بنوائے مگر اس نسل سے تعلق رکھنے والی بھاری اکثریت نے برطانوی شہریت حاصل نہ کی اور یہی سمجھا کہ چونکہ انہیں اس ملک میں لایا گیا تھا اس لئے وہ ازخود یہاں کے شہری بھی بن گئے ہوں گے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اب برطانیہ سمیت یورپ کے تقریباً تمام ممالک میں امیگرنٹس کے لئے زمین تنگ کی جاری ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ کئی برس سے پاکستان اور دوسرے ایشیائی ممالک کے افراد کی پکڑ دکھڑ اور انہیں ڈی پورٹ کرنے کا سلسلہ خاموشی سے جاری تھا۔ اس کے خلاف کوئی بہت زیادہ آواز بھی نہیں اٹھائی گئی تاہم اب کریبین ممالک کی ونڈرش نسل کو جس طرح امیگریشن حکام نے آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا تو برطانیہ بھر میں طوفان برپا ہوگیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اپوزیشن ہم آواز ہوکر اس کی مذمت کررہی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 50/60سال سے برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے والوں کو یہ کہا جائے کہ چونکہ وہ اس ملک کے باشندے نہیں ہیں اس لئے یہاں سے نکل جائیں وگرنہ انہیں زبردستی نکالا جائے گا۔ ان افراد کو نہ صرف ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا بلکہ ان کی میڈیکل تک رسائی بھی محدود کردی گئی اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں لے جانے اور شدید احتجاج کے بعد اب حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور ان تمام افراد کو فوری طور پر برطانوی شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان سے شہریت کے لئے ہزاروں پونڈ کی فیس لی جائے گی نہ ہی انہیں کوئی انگلش ٹیسٹ دینا ہوگا۔ یہ سکیم صرف ونڈرش جنریشن کے لئے نہیں بلکہ اسی دور میں دولت مشترکہ سے آنے والے ان تمام افراد پر بھی لاگو ہوگی جنہوں نے شہریت حاصل نہیں کی۔1971سے پہلے برطانیہ آنے والوں میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے، جنہوں نے پکڑے جانے کے ڈر یا پھر کم علمی کی بنیاد پر برطانوی شہریت حاصل نہیں کی۔ مجموعی طور پر ایسے امیگرنٹس کی تعداد 57ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے جن میں انڈیا کے امیگرنٹس بھی ہیں۔ تاہم اب یہ امید کی جارہی ہے کہ ان سب افراد کو برطانوی شہریت مل جائے گی، البتہ وزیراعظم تھریسامے یہ بھی چاہتی ہیں کہ صرف ان افراد کو فوقیت دی جائے جنہوں نے برطانیہ میں کام کیا اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ٹوری پارٹی نے8برس پہلے اقتدار سنبھالتے ہی امیگریشن قوانین کو سخت کرنے کا اعلان کیا تھا، قوانین کے بننے کے بعد کم از کم پاکستان جیسے ممالک سے کام کرنے اور خاندان میں شامل ہونے کے لئے آنے والوں پر سخت پابندیاں لگادی گئی ہیں۔ بچوں کی پاکستان میں شادیوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، پاکستان سے سٹوڈنٹس کی آمد کا سلسلہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ ورک ویزے بھی جاری نہیں کئے جارہے، اس کے مقابلے میں بھارت سے افرادی قوت بڑی تعداد میں برطانیہ آرہی ہے۔ بھارتی باشندوں کو ویزے حاصل کرنے میں بھی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے باشندوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ اگر برطانوی حکومت کا موقف ہے کہ وہ ویزے دینے میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتی تاہم عملاً دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ برطانیہ بھی بھارتی باشندوں کو اس کی مضبوط معیشت اور بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے فوقیت دیتا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کی معیشت مضبوط ہے اور نہ ہی کوئی خارجہ پالیسی۔